احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
سرانجام دیں جو قابل رشک ہیں۔ قادیانیت ہی نہیں بلکہ اس کا بانی مرزاقادیانی بھی آپ کے نام سے اس طرح کانپتا تھا جس طرح شیطان، سیدنا فاروق اعظمؓ کے نام سے لرزاں ترساں ہوکر بھاگ جاتا تھا۔ آپ نے مرزاقادیانی کے قصیدہ اعجازیہ کے جو لتّے لئے وہ حصہ ’’الہامات مرزا‘‘ سے اس جلد میں شائع کر رہے ہیں۔ مولانا کا وصال ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء کو سرگودھا میں ہوا۔ فقیر کو مجاہد ملت حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی مدظلہ کے ہمراہ مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ کے مرقد پر ایصال ثواب کی غرض سے حاضری کی سعادت نصیب بھی ہوئی ہے اور بس۔ ۳… قصیدہ رائیہ بجواب قصیدہ مرزائیہ: اس قصیدہ کے مؤلف مولانا قاضی ظفرالدین احمدؒ کا نسب نامہ اس طرح ہے۔ قاضی ظفرالدین بن قاضی محمد امام الدین بن قاضی نور محمد بن قاضی فیض رحیم۔ حضرت قاضی صاحبؒ کے اباء واجداد جموں کشمیر سے آ کر گوجرانوالہ میں آباد ہوئے۔ گوجرانوالہ سے شمال مغرب میں ایک قصبہ کوٹ قاضی کے نام سے موسوم ہے۔قاضی ظفرالدین کے اجداد ’’قاضی‘‘ کے منصب پر فائز رہے۔ اس لئے ان کے رہائشی گاؤں کا نام ’’کوٹ قاضی‘‘ قرارپایا۔ اسی ’’کوٹ قاضی‘‘ میں ۱۲۷۵ھ میں قاضی ظفرالدین پیدا ہوئے۔ پھر ’’کوٹ قاضی سے جنڈیالہ باغ والا‘‘ میں منتقل ہو گئے۔ مغلیہ عہد میں گوجرانوالہ ’’ایمن آباد‘‘ کے تحت ’’کوٹ قاضی‘‘ میں منصب قضاء پر یہ خاندان فائز تھا۔ قاضی ظفرالدین کے والد گرامی عالم، فاضل تھے۔ آپ نے انہیں سے عربی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے والد گرامی اور دیگر اساتذہ سے حدیث، تفسیر، طب، ادب، معقولات، فقہ اور اصول کی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے آپ نے فاضل عربی، مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ پھر اورینٹل عربی کالج لاہور میں ۱۸۸۱ء سے آخری دور حیات تک تعلیم دیتے رہے۔ اس طرح حکومتی دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی آپ کے لیکچرز ہوتے تھے۔ ۱۸۹۶ء میں مدرسہ حمیدیہ لاہور میں پہلے ناظم مقرر ہوئے۔ جامعہ حمیدیہ، انجمن حمایت اسلام لاہورکے زیراہتمام تھا۔ جامعہ حمیدیہ کو قاضی حمید الدین رئیس حمایت اسلام لاہور کے نام پر قائم کیاگیا تھا۔ جب مدرسہ حمیدیہ کے ناظم قاضی ظفرالدینؒ مقرر ہوئے تو آپ نے ندوۃ العلماء، پنجاب یونیورسٹی اور جامعہ ازہر کے نصاب ہائے تعلیم سے مدرسہ حمیدیہ کا نصاب ترتیب دے کر رائج کیا جو دینی ودنیوی تعلیمی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ قاضی ظفرالدین صاحبؒ کی حصول تعلیم اور