احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ہے جو عیب قصیدہ کا نام پاتی ہے اور پھر قافیہ کا آخری حرف جس پر قصیدہ مبنی ہوتا ہے حرف ردی کہلاتا ہے۔ چنانچہ قصیدہ ہذا کا حرف ردی حرف را ہے اور قصیدہ کو قصیدہ رائیہ کہا جائے گا۔ مرزائی قصیدہ کے چند ابتدائی اشعار کی تصحیح جاننا چاہئے کہ مرزائی قصیدہ کے بیشتر اشعار میں غلط بیانی اور بدگمانی سے کام لیاگیا ہے اور پھر واقعیت اور حقیقت سے عمداً گریز واحتراز کو اپنایا گیا ہے اور بالخصوص مولوی ثناء اﷲ امرتسریؒ صاحب کو بازاری الفاظ والقاب سے دل کھول کر مضروب ومجروح کیاگیا ہے۔ بنابرآں میں نے ضروری سمجھا ہے کہ نمونتہً مرزائی قصیدہ کے ابتدائی اور درمیانی اشعار کی تصحیح کر دی تاکہ قارئین کو مرزائی خرافات وذمائم کا اندازہ ہو سکے اور وہ دیگر اشعار پر میرے نمونہ کے مطابق خود تنقیح وتصحیح کر سکیں۔ میرا نمونہ تصحیح بطور ذیل ہے: ۱… پہلے شعر میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کوہلاک شدہ اور گمراہ اور کینہ ور کہا گیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک صحت مند اور حق پرست اور صاف دل آدمی تھا۔ میری تصحیح بطور ذیل ہے: ایا ارض مدٍ قد اتاک معمر وارضاک علیم وحیاک خیروا اے زمین مدّ! تیرے پاس ایک آباد کار آگیا اور تجھے ایک علامہ نے خوش اور ایک باخیر آدمی نے زندہ کر دیا۔ ۲… دوسرے شعر میں مولوی صاحب کو کاذب ومفسد اور پکڑا جانے والا کہا گیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک محقق اور صلح کن آدمی تھا اور کسی کے قابو میں آنے والا نہیں تھا۔ میری تصحیح بطور ذیل ہے: دعوت لنا علامۃ متبحراً وذاحوت بحر اخذہ متعذر اے زمین مدّ! تو نے ہمارے لئے ایک متبحر علامہ کو بلالیا ہے اور یہ سمندر کی مچھلی ہے جس کا پکڑنا مشکل ہے۔ ۳… تیسرے شعر میں یہ غلط بیانی ہے کہ مرزائی نمائندے برادر ناصح بن کر آئے تھے۔ حالانکہ وہ بحث ومناظرہ کرنے کے لئے فریق مخالف بن کر مقام مدّ میں وارد ہوئے تھے اور میری تصحیح بطور ذیل ہے: اجاء ک منہ صاحباہ بعجلۃ وقالاک لانبغی فسادا ونصبر اور تیرے پاس اس کی طرف سے بجلد اس کے دو ساتھی آئے، اور تجھ کو کہا کہ ہم فساد نہیں چاہتے اور صبر کرتے ہیں۔