احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مرزاکے قصیدہ اعجازیہ اور تفسیر کی مہمل غیر فصیح ہونے پر دوادیبوں کی شہادت پہلا شاہد ہندوستان میں عربی کے مشہور ادیب مولوی شبلی صاحب نعمانی ہیں۔ ان سے ان دونوں رسالوں کی حالت دریافت کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’قادیانی کو عربیت سے مطلق مس نہ تھا۔ ان کا قصیدہ اور تفسیر فاتحہ میں نے خوب دیکھی ہے۔ نہایت جاہلانہ عبارت ہے۔ مصر کے مشہور رسالے نے لوگوں کے اصرار سے اس کی غلطیاں بھی نہایت کثرت سے دکھائی ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ عربیت اس قدر مفقود ہے کہ قادیانی کو ایسی جرأت ہوسکی۔‘‘ (۵؍جولائی ۱۹۱۱ء کا یہ خط ہے) دوسرا شاہد مولوی حکیم شاہ محمد حسین صاحب الہ آبادی بھی مشہور عالم ہیں۔ انہیں بھی عربی ادب سے پورا مذاق تھا۔ ان سے کہاگیا کہ اعجاز المسیح کا جواب لکھیں۔ انہوں نے رسالہ منگوایا اور رسالہ کو دیکھ کر کہا کہ اس کا جواب کیا لکھوں؟ جس کتاب میں نہ عمدہ مضامین ہوں، نہ اس کی عبارت فصیح وبلیغ ہو اس کے جواب میں کون ذی علم اپنے اوقات عزیز کو خراب کر سکتا ہے؟ اگر مضامین کچھ عمدہ ہوتے یا عبارت ہی فصیح وبلیغ ہوتی تو اس کے جواب دینے میں دل لگتا۔ غرضیکہ کوئی ادیب ذی علم تو اسکو عمدہ اور فصیح وبلیغ بھی نہیں کہہ سکتا اور معجزہ کہنا تو عظیم الشان بات ہے اور جن میں یہ مادہ ہی نہیں ہے کہ عمدہ مضامین اور معمولی باتوں اور فصیح وغیرفصیح عبارت میں تمیز کر سکیں، یا مرزاقادیانی کی محبت نے ان کی عقل وتمیز کو کھو دیا ہے۔ ان کے لئے اگر سو جواب لکھے جائیں گے تو وہ ہرگز نہ مانیں گے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی متعدد باتوں میں تجربہ ہورہا ہے۔ کیسے کیسے صریح اقوال انہیں کے قلم سے لکھے ہوئے ان کے کاذب ہونے کے ثبوت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ مگر سوائے بیہودہ باتیں بنانے کے کچھ نہیں کہتے۔ پھر ایسے حضرات کی خیرخواہی میں محنت کرنا بے کار ہے۔ جواب نہ لکھنے کی یہ وجہ دوسرے حصہ میں لکھی گئی ہے۔ اس کے جواب میں حضرات مرزائی دم نہیں مارتے۔ مگر رسالوں کے اعجاز کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی نے جواب نہ دیا۔ اے جناب! اگر ہم یہ مان لیں کہ جواب نہیں دیا تو اس سے اعجاز ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ ان رسالوں کی کمال حقارت ثابت ہوتی ہے کہ اہل کمال کے لائق توجہ نہیں ہیں۔ جب ان رسالوں کی یہ حالت ہے تو انسانی نیچر کا اقتضاء یہ ہے کہ ایسی لچر تحریر کی طرف اہل کمال کی توجہ نہ ہو۔ اگرچہ ناواقف کیسا ہی عمدہ اسے سمجھیں۔ مگر اہل کمال اس کی طرف