احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۴… قصیدہ کے چودھویں صفحہ کا ایک صحیح شعر بطور ذیل ہے: ارضعت من سعلی الفلایا ابو الوفاء فما لک لا تخشیٰ ولا تتفکر اے ابو الوفاء! کیا تجھے غولہ کا دودھ پلایا گیا ہے۔ تجھ کو کیا ہوگیا کہ تو نہ ڈرتا ہے اور نہ فکر کرتا ہے۔ اور اصل شعر میں یہ غلطی ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے شعر میں لفظ ’’غول‘‘ استعمال کیا ہے اور غول بمعنی دیو اور شیطان مذکر ہوتا ہے اور دودھ نہیں دیتا اور دودھ اس کی مؤنث سعلیٰ دیتی ہے۔ جب کہ وہ حاملہ بنتی ہے اور بچہ جنتی ہے اور دودھ دیتی ہے۔ لیکن مرزاقادیانی چونکہ خنثیٰ مشکل تھا اور مردانہ وزنانہ آلات تناسل رکھتا تھا اور اس کے دونوں پستان سے دودھ نکلتا تھا۔ اسلئے اس نے غول کو اپنے اوپر قیاس کر لیا اور اسے دودھ دینے والا بنا دیا اور سعلیٰ کو چھوڑ کر غول لکھ دیا۔ مرزائی قصیدہ کے چند مشہور نقائص اوّل… یہ کہ مرزاقادیانی نے اپنے قصیدہ کے مجزوم حرف روی کو مضموم لکھا ہے جس کو اصطلاح نظم میں اکفاء کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ قصیدہ کے چھٹے صفحہ کا لفظ ’’لم یتحسر‘‘ ہے اور مجزوم الراء ہے۔ لیکن اس کو مرفوع الراء لکھا گیا ہے۔ حالانکہ لفظ: ’’لا یتحسر‘‘ (نہیں تھکتا) لکھا جاسکتا تھا اور یہی عیب ونقص بہت سے مقامات پر موجود ہے۔ چنانچہ قصیدہ کا آخری شعر بھی اسی عیب ونقص سے معیوب ہے اور ’’انصر‘‘ کو ’’انصرو‘‘ لکھا گیا ہے۔ جیسا کہ بطور ذیل ہے: ویارب ان ارسلتنی بعنایۃ فاید وکمل کل ماقلت وانصروا اے اﷲ! اگر تو نے مجھ کو اپنی عنایت سے رسول بنایا ہے تو میری تائید ومدد کر اور میری کہی ہوئی بات کو کامل کر۔ دوم… یہ کہ اگر قافیہ کے آخری حرف کو جو ردی کہلاتا ہے۔ دوسرے حرف سے بدل دیا جائے تو یہ بھی عیب قصیدہ اور نقص نظم ہے۔ جیسا کہ قصیدہ کے اٹھارویں صفحہ پر بجائے ’’تسحر‘‘ کے ’’تصبح‘‘ لکھا گیا ہے اور ’’ر‘‘ کو ’’ح‘‘ سے بدلا گیا ہے۔ سوم… یہ کہ اگر روی کی حرکت ضمہ کو فتحہ سے بدلا جائے تو یہ بھی عیب قصیدہ ہے جس کو اقواء کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قصیدہ کے آخری صفحہ کے قبل صفحہ میں ’’لیظہر‘‘ کو ’’لیظہر‘‘ لکھا اور پڑھا گیا ہے اور فتحہ کو ضمہ سے بدلا گیا ہے۔ چہارم… یہ کہ اگر قافیہ یا آخری سالم مصرعہ دو متصل شعروں میں لفظاً ومعناً ایک ہو تو یہ بھی عیب قصیدہ ہے جو ایطاء کہلاتا ہے۔ جیسا کہ قصیدہ کے ساتویں صفحہ پر دو متصل شعر بطور ذیل ہیں: