احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
شحنہ ہند مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء میں اہالی مذکور نے شائع کرادی۔ مگر مرزاقادیانی کو ان کے فرستادوں نے ایسا کچھ ڈرایا اور اپنی ذلت کا حال سنایا کہ مرزاقادیانی آپے سے باہر ہوگئے اور جھٹ سے ایک رسالہ ’’اعجاز احمدی‘‘ نصف اردواور نصف عربی نظم لکھ کر خاکسار کے نام مبلغ دس ہزار روپیہ کے انعام کا اشتہار دیا کہ اگر مولوی ثناء اﷲ امرتسری اتنی ہی ضخامت کا رسالہ اردو عربی نظم جیسا میں نے بنایا ہے پانچ روز میں بنادے تو میں دس ہزار روپیہ ان کو انعام دوں گا اور اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ اعجازیہ‘‘ رکھا۔ یعنی یہ قصیدہ ایسا فصیح وبلیغ ہے جیسا کہ قرآن، آنحضرت کا معجزہ ہے یہ میرا معجزہ ہے۔ اس قصیدے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مولوی ثناء اﷲ (خاکسار) کے اس قسم کے قصیدے کے لکھنے سے عاجز رہنے سے میری وہ پیش گوئی جو سہ سالہ میعاد کی میں نے طلب کی ہوئی ہے پوری ہو جائے گی۔ یعنی یہی وہ نشان ہے جس کی بابت مرزاقادیانی نے خدا سے اتنے بڑے لمبے چوڑے دانت پیس پیس کر سوال کئے تھے۔ مرزاقادیانی کا چیلنج قبول اب اس سوال کے متعلق میری کارروائی بھی سنئے۔ میں نے ۲۱؍نومبر ۱۹۰۲ء کو ایک اشتہار دیا جس کا خلاصہ ۲۹؍نومبر کے پیسہ اخبار لاہور میں چھپا تھا کہ: ’’آپ پہلے ایک مجلس میں اس قصیدے اعجازیہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کر دیں تو پھر میں آپ سے زانو بزانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زور لگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہیں محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کامنہ ہے ادھر ہی خداکا منہ ہے۔ (جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے) تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں طبع آزمائی نہ کریں۔ بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی ؎ بنائی آڑ کیوں دیوار گھر کی نکل! دیکھیں تیری ہم شعر خوانی حرم سرائے ہی سے گولہ باری کریں۔ اس کا جواب باصواب آج تک نہ آیا کہ ہاں ہم میدان میں آنے کو تیار ہیں۔ چونکہ میں نے اس اشتہار میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر آپ مجلس میں اغلاط نہ سنیں گے تو میں اپنے رسالہ میں ان کا ذکر کردوں گا۔ اس لئے آج میں اس وعدے کا ایفاء کرتا ہوں۔