احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ہم قیامت تک تہہ دل سے آیات واحادیث پر راضی ہوچکے ہیں۔ مرزاقادیانی کی دورنگی دیکھئے کہ اس نے اپنے قصیدہ کے اندر احادیث نبویہ پر اپنی نفرت وحقارت کا اظہار کیا ہے اور ان کو مکڑی کا جالا قرار دیا ہے اور پھر ان کو ظنیات کا انبار سمجھا ہے۔ لیکن اس نے اپنے اسی محاکمہ کے اندر قدرے نرم رویہ اختیار کیاہے اور اپنی جماعت کو تلقین ونصیحت کی ہے کہ وہ اہل حدیث فرقہ کے قریب رہ کر مولوی عبداﷲ چکڑالوی سے اجتناب کریں اور ان کے عقائد واعمال سے محترز رہیں۔ ان حالات کے پیش نظر مرزاقادیانی احادیث نبویہ کی اکثریت کا منکر ہے اور انکار حدیث کے بارے میں مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے اور اس کا ظل وبروز قرار پاتا ہے۔ حدیث وسنت کا مفہوم اب باقی تصفیہ طلب بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ کیا حدیث وسنت دونوں کا مفہوم ایک ہے یا ان میں وہ فرق صحیح ہے جو مرزاقادیانی نے اختیار کر کے بیان کیا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ فقہائے اسلام کی ایک اصطلاح میں لفظ سنت آنحضرتa کے اقوال وافعال اور سکوت پر اطلاق ہوتا ہے۔ جیسا کہ نور الانوار کے اندر اقسام سنت کے تحت میں مذکور ہے اور محدثین کے نزدیک لفظ حدیث مذکورہ تین امور پر مستعمل ہے۔ جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے مقدمۃ المشکوٰۃ کے شروع میں تحریر کیا ہے۔ اس طرح واضح ہو گیا کہ لفظ حدیث وسنت تقریباً مترادف المفہوم ہیں، یا کم ازکم لازم وملزوم یا ملزوم ولازم ہیں۔ جیسا کہ حدیث ذیل سے مترشح ہوتا ہے۔ ’’ترکت فیکم امرین کتاب اﷲ وسنتی ماان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی‘‘ {میں نے تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں۔ ایک کتاب اﷲ اور دوسرے اپنی سنت، تم جب تک ان سے چمٹے رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔} آپa کی یہی نصیحت دوران مرض الموت میں فرمائی گئی ہے۔ یہاں پر لفظ سنت سے آپa کے اقوال وافعال اور سکوت تینوں امور مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ تم کتاب اﷲ کے ساتھ ساتھ میرے افعال واقوال اور میرے ما علیہ السکوت کے بھی پابند رہو اور یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ تم صرف میرے کئے ہوئے کاموں پر عمل کرو اور میرے اقوال وفرامین پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے۔ بنابرآں واضح ہوگیا کہ لفظ حدیث وسنت باہم مترادف المفہوم اور ہم معنی ہیں اور مرزائی تفریق سراسر باطل ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے زیر بحث محاکمہ کے اندر