احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
گئے اور ڈاکوؤں نے سوا چشمہ اور تھوڑا پارہ (جو مہوسی کے لئے ساتھ رہتا تھا) کے کچھ نہ چھوڑا تو آپ نے شاہ دکن کو عریضہ لکھا جس کے سرنامہ پر یہ شعر تھا ؎ عینکے وپارۂ سیماب باما ماندہ است چشم بیخواب و دل بیتاب باما ماندہ است اس کے بعد حکیم الامۃ شاہ ولی اﷲ مرحوم محدث دہلوی کا قصیدہ نعتیہ اور دیگر تصانیف عربیہ ہیں اور فخر الادباء والمتکلمین مولانا فضل الحق خیرآبادی کے قصائد میمیہ وغیرہ اور اسوۃ الفضلاء مفتی محمد عباس مرحوم کے قصائد وغیرہ وغیرہ اسی وجہ سے علمائے کرام نے اس کی تنقید اور جواب کی طرف توجہ نہ کی اور خیال فرمایا کہ ابھی ہندوستان کی جہالت اس درجہ پر نہیں پہنچی ہے کہ عوام بھی ہر سحر سامری کو اعجاز موسوی سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ تھی جس نے ان کو اس کی طرف توجہ کرنے سے باز رکھا۔ لیکن زمانہ کی نیرّنگیاں قدرت کا تماشا ہیں۔ مرزاقادیانی اور ان کے اتباع نے اس کو غنیمت سمجھ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی اعجازی مسجد الگ کھڑی کر کے تمام شور مچا دیا کہ دیکھو مدت معینہ میں کسی نے ایسا قصیدہ نہ لکھا اور نہ کوئی لکھ سکتا ہے۔ حاجی محمد یونس رئیس وتاولی کی طرف سے چیلنج قبول مگر مرزاقادیانی کی جانفشانی اور حرمانی پر افسوس کرنا چاہئے کہ یہ خیال بھی ان کا غلط ہوا۔ مولوی حاجی محمد یونس رئیس وتاولی ضلع علی گڑھ نے ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء میں مرزاقادیانی کے نام یہ اعلان دیا تھا جس کو میں بعینہ نقل کرتا ہوں۔ ’’مخدوم مکرم بندہ! ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار سلمہ اﷲ،السلام علیکم ورحمتہ اﷲ! پیسہ اخبار مطبوعہ ۲۲؍نومبر ۱۹۰۲ء میں ایک مضمون مرزاقادیانی کا دیکھنے میں آیا۔ مرزاقادیانی اپنی معمولی چالاکی سے اس میں بھی باز نہ آئے۔ یعنی میعاد قصیدہ عربی لکھنے والے کو صرف بیس دن کی مہلت دیتے ہیں اور پیسہ اخبار ہفتہ وار میں مضمون شائع کرایا ہے جو ۱۶؍نومبر کا لکھا ہوا، ۲۲؍نومبر کو شائع ہوا۔ ناظرین کے پاس بھیجنے کے واسطے بھی کچھ عرصہ چاہئے۔ پھر اشعار کا بنانا بھی ایک وقت چاہتا ہے۔ لیجئے وقت ختم اور مرزاقادیانی کے داؤ پیچ کی جیت رہی۔ جب کسی انعام کا اشتہار دیتے ہیں تو اس میں وہ سب پہلو پہلے سے سوچ لیتے ہیں کہ ایک کوڑی گرہ سے نجائے۔‘‘ ً اس کے بعد مولوی صاحب موصوف قصیدہ اور قرآن مجید کے اعجازکا مقابلہ دکھاتے ہوئے یوں لکھتے ہیں: ’’پھر تماشا یہ کہ وہ عربی قصیدہ چھاپ کر اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ پیسہ اخبار