احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اور پھر مرزاقادیانی کے زیر جواب قصیدہ کے اندر بھی عجب بصلہ لام قلت سے اور بصلہ من کثرت سے استعمال کیاگیا ہے۔ جیسا کہ قاری صاحبان قصیدہ کو پڑھ کر معلوم کر لیں گے۔ نیز گورنمنٹ برطانیہ نے مولوی صاحب زیرتذکرہ کو کچھ رقبہ دے کر لوگوں کی طرح آباد کاری کے شرائط پر دے دیا۔ اس پر مرزاقادیانی جل اٹھا کہ اس کو زمین نہ ملی اور اس کے حریف کو مل گئی۔ سچ ہے ؎ شور بختاں بآرزو خواہند مقبلاں را زوال نعمت و جاہ بدبخت لوگ نیک بختوں کی شان وعظمت کے زوال کی آرزو رکھتے ہیں۔ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتاب راچہ گناہ اگر چمگادڑ دن کو نہیں دیکھتا، تو اس میں سورج کی روشنی کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ مولوی صاحب مذکور کی طرف سے مرزائی کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ کی اغلاط فاحشہ کی ایک طویل فہرست تیار کر کے اس کے علم میں لائی گئی ہے۔ بلکہ ان اغلاط کو پیش مرزا کر کے ان کی تصحیح کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ لیکن یہ شخص تصحیح اغلاط نہ کر سکا اور احباب واعداء میں رسوا ہوا۔ اسی سلسلہ میں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں پر اپنے چند علمی وادبی نشانات لکھ دوں جن میں میں نے مرزائیوں، عیسائیوں، بہائیوں کو مخاطب کیا ہے اور ان کے نظریات باطلہ کی تردید کر کے ان کو ساکت وخاموش بنایا ہے اور انہوں نے میری گرفت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ علمی وادبی نشانات محمدیہ نشان اوّل دربارہ مسیح ومہدی یہ کہ کراچی کی مرزائی جماعت کے مربی مولوی محمد اجمل شاہد نے میرے ساتھ حدیث: ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘ {تم کیسے خوش قسمت ہو گے جب ابن مریم تمہارے اندر نازل ہوگا اور تمہارا امام تم میں سے برپا ہوگا۔} پر بذریعہ خط وکتابت گفتگو شروع کر کے یہ مؤقف اختیار کیاکہ حدیث ہذا میں مرزاقادیانی کو ابن مریم اور امام کے لقب سے یاد کیاگیا ہے۔ میں نے جواباً اس کو مفہوم حدیث کی چند توجیہات پیش کیں۔ پہلی وہ توجیہہ ہے جو سابقاً مولوی ابوالعطاء جالندھری کے ذکر میں آچکی ہے اور باقی توجیہات بطور تکملہ تھیں۔