احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
وجہ یہ ہے کہ لفظ ’’البغایا‘‘ لفظ ’’البغی‘‘ کی جمع ہے اور بغی لغۃً ایک زانیہ وفاخرہ عورت کو کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ آیت قرآن ہے: ’’وما کانت امک بغیاً‘‘ {اور تیری ماں زانیہ فاجرہ عورت نہ تھی۔} اور جیسا کہ المنجد میں ہے: ’’البغی المرأۃ الزانیۃ الفاجرۃ والجمع بغایا‘‘ بنابرآں ذریۃ البغایا کا معنی زانیہ عورتوں کی اولاد اور حرامزادے لوگ بنتا ہے۔ دراصل مذکورہ بالا عبارت میں مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالویؒ اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ اور علی حائری صاحب لاہوری کو اشارۃً وکنایۃً ذریۃ البغایا بمعنی حرامزادے کہا گیا ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی خود بھی اعداداً اسی قسم کے الفاظ سے متصف ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ’’ذریۃ الزانیہ والزانی/۱۱۲۴‘‘ اور پھر ’’الولید البغی/۱۱۲۴‘‘ اور ’’الولید الغبی/۱۱۲۴‘‘ اور غلام احمد/۱۱۲۴ کے اعداد پورے ۱۱۲۴ برآمد ہوتے ہیں جن سے یہ شخص بھی جیسی کرنی ویسی بھرنی کا مصداق ومورد بن جاتا ہے اور اعداداً مذکورہ بالا گندے القاب حاصل کرتا ہے۔ پانچویں گالی: یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے مولوی ثناء اﷲ صاحب پر دس لعنتیں ڈالی گئی ہیں اور اسے دس لعنتوں کا ملعون گردانا ہے اور پھر ان دس لعنتوں کو لمبا کر کے دس دفعہ بطور ذیل لکھا ہے: ’’لعنت‘‘ اور آخر میں آیت ’’تلک عشرۃ کاملۃ‘‘ لکھی ہے۔ (اعجاز احمدی ص۳۹، خزائن ج۱۹ ص۱۴۹) الجواب اوّلاً: یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے دس لعنتوں پر آیت قرآن کو استعمال کر کے اپنی گستاخی وشرارت کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ قرآن نے اس آیت کو دس روزوں پر استعمال کیا ہے جو ایک حاجی بعدادائے حج رکھا کرتا ہے اور اس شخص نے اسی آیت قرآن کو دس لعنتوں پر استعمال کر کے اپنی بے راہ روی سے پردہ اٹھایا ہے اور خود کو بزبان خود اعداداً بے راہ رو ثابت کیا ہے۔ کیونکہ ’’مرزاقادیانی/۴۲۴‘‘ اور لفظ ’’بے راہ رو/۴۲۴‘‘ کے اعداد برابر ہیں اور نتیجتاً وہ غلط راہ پر چلنے والا بنتا ہے۔ الجواب ثانیاً: یہ کہ مرزاقادیانی خود ہی اپنی دس لعنتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ لفظ ’’لعنت‘‘ ایک عربی لفظ ہے اور عربی رسم الخط میں اس کو بشکل ’’لعنۃ‘‘ لکھا جاتا ہے اور اس کے اعداد حروف ۱۵۵بنتے ہیں اور دس لعنتوں کے اعداد (۱۵۵۰) ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کی دس لعنتوں کے اعداد بھی (۱۵۵۸) ہیں اور ’’میرزا غلام احمد قادیانی‘‘ کے اعداد بھی یہی ہیں۔ جیسا کہ بطور ذیل ہے: