احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ہاں! مرزاقادیانی بذات خود اپنی بدنام اور اذیت ناک کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ کی اشاعت کے بعد چھ سال کے عرصہ میں ضرور ہلاک ہوا ہے۔کیونکہ یہ کتاب سال ۱۹۰۲ء میں مرتب ہوکر شائع ہوئی اور مرزاقادیانی اشاعت کتاب کے چھ سال بعد ۱۹۰۸ء میں شہر لاہور کے اندر ہلاک ہوکر اپنے پیدائشی قصبہ قادیان میں مدفون خاک ہوا۔ سچ ہے ؎ ’’چاہ کن را چاہ در پیش‘‘ یا ’’کردنی خویش آمدنی پیش‘‘ یا ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ مشہور مثالیں ہیں۔ چنانچہ لیکھرام کو چھ سال کے اندر مارنے والا مرزا خود چھ سال کے اندر ہلاک ہوگیا اور اپنے موضوعان پیش گوئی عبداﷲ آتھم اور لیکھرام کو لاجواب اور ساکت نہ کر سکا۔ جس سے اس کی سخت تر اور قبیح تر رسوائی ہوئی اور اپنے دوستان ودشمنان کے آگے سر اٹھانے کے قابل نہ رہا اور مرتے دم تک اپنی دونوں پیش گوئیوں کی تصحیح میں ہیرا پھیری اور حیلے بہانے تراشتا رہا۔ لیکن ان کا تسلی بخش دفاع نہ کر سکا اور آخر دم تک کڑھتا رہا۔ اب میں ان مرزائی پیش گوئیوں کے بالمقابل اپنی چند پیش گوئیاں اور چند درخشاں نشانات پیش کرتا ہوں تاکہ قارئین حضرات فریقین کی پیش گوئیوں اور نشانات کا موازنہ کر سکیں اور مرزائی الہام اور قادیانی کشوف سازی کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔ چند محمدی پیش گوئیاں پیش گوئی اوّل دربارہ لفظ توفی پیش گوئی اوّل یہ ہے کہ مرزائیت کا ایک مشہور اور نامور مبلغ جلال الدین شمس نامی ایک شخص تھا جس سے میں اس وقت متعارف ہوا جب کہ یہ شخص بہاول پور کے مشہور مقدمہ تنسیخ نکاح (مسماۃ عائشہ) بنام عبدالرزاق مرزائی میں بطور گواہ مدعا علیہ کے عدالت سول جج بہاول پور میں پیش ہوا اور مرزا واہل مرزا کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے اپنا زبانی وتحریری بیان پیش عدالت کیا۔ میں نے اس کو بذریعہ ایک خط مسجل (رجسٹرڈ) کے اطلاع دی کہ اگر میں مرزاقادیانی کے چیلنج لفظ ’’توفی‘‘ اور لفظ ’’الدجال‘‘ کو دلائل وبراہین سے غلط ثابت کر دوں تو کیا آپ لوگ مجھ کو دونوں موعودہ انعامات ادا کرو گے یا نہیں۔ ان کی جانب سے مجھے اطلاع ملی کہ چیلنج اوّل کے شکستہ کرنے پر آپ کو متعلقہ موعودہ انعام دے دیا جائے گا۔ لیکن چیلنج دوم کے متعلق خاموشی اور سکوت اختیارکیا گیا اور مجھ سے مطالبہ کیاگیا کہ میں اپنی چیلنج شکن مثال ان کے سامنے لاؤں تاکہ ان کو مثال کی