احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ہوا کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔ مگر مرزاقادیانی نہ مانے پر نہ مانے اور اپنے رسمی عقیدہ پر جمے رہے اور ان کا خدا خوشامدیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ؎ سب کچھ سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی جب خوشامد حد تواتر کو پہنچی تب آپ نے مانا۔ شاباش! مرزاقادیانی آپ کا کیا کہنا۔ یہ کیسا دروغ بے فروغ ہے۔ کیا کسی سچے نبی کی یہ شان ہوسکتی ہے کہ باوجود زمانہ دراز تک باربار الہامات ہونے کے بھی اپنے جھوٹے اور رسمی عقیدہ پر جما رہے اور برابر بارہ برس تک یک لخت براہین میں جھوٹ کی اشاعت کرتا رہے۔ ایں کار از تو آمد ومرزا چنیں کند اس میں یہ پہلا جھوٹ تھا۔ اب ناظرین دوسرا جھوٹ سنیں۔ مرزاقادیانی کا جھوٹ نمبر۳۲،۳۳ ’’جب اس بارہ میں انتہاء تک خدا کی وحی پہنچی۔‘‘ حضرات مرزاقادیانی کی اس دلیری کو دیکھیں کہ دوچار دس بیس وحی الٰہی پر وہ ایمان نہ لائے۔ جب تک انتہاء کو نہ پہنچی۔ عجب جرأت تھی اس دل میں جسارت ہو تو ایسی ہو مگر اس کو تو بتایا ہوتا کہ ان کے نزدیک انتہاء کیا ہے۔ اگر انتہاء اس کا نام ہے جیسا وہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’اور میرے دل میں روز روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴) تو میں پوچھتا ہوں کہ جب دس بیس وحی میں مرزاقادیانی کو یقین نہ ہوا اور زمانہ دراز تک وسوسہ شیطانی سمجھ کر ٹالتے رہے اور رسمی عقیدہ پر جمے رہے تو اس کی کسے خبر ہے کہ اب بھی ان کا جس بات پر یقین ہے وہ بھی کہیں اضغاث احلام (خواب پریشان) نہ ہو اور ایسا ہی ہے۔ یہاں وسوسہ شیطانی کا لفظ جو میں نے لکھا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ ان کے بڑے مرشد مہدی موعود شیخ محمد جونپوری نے کہا ہے۔ چنانچہ مطلع الولایت میں لکھا ہے: ’’اوّل بارہ برس تک امر الٰہی ہوتا رہا اور میران وسوسۂ نفس وشیطانی سمجھ کر ٹالتے رہے اور بعد بارہ برس کے خطاب باعتاب ہوا کہ ہم روبرو سے فرماتے ہیں اور تو اس کو غیراﷲ سے سمجھتا ہے۔ بعد اس کے بھی شیخ موصوف اپنے عدم لیاقت وغیرہ کا عذر پیش کر کے آٹھ برس اور ٹالتے رہے۔ بعد بیس برس کے خطاب باعتاب ہوا کہ قضائے الٰہی جاری ہوچکی۔ اگر قبول کرے گا ماجور ہوگا۔ ورنہ مہجور ہوگا۔‘‘ (ہدیہ مہدویہ ص۳۴) حضرات ناظرین! باہم دل کا متشابہ ہونا اسے کہتے ہیں: ’’کذالک قال الذین من