احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
M عرض مرتب الحمدﷲ وکفٰی وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفٰے۰ امابعد! مرزاقادیانی نے ’’قصیدہ اعجازیہ‘‘ لکھا جس کا دوسرا نام ’’اعجاز احمدی‘‘ اور تیسرا نام ’’ضمیمہ نزول المسیح‘‘ بھی ہے۔ گویا ایک میں تین اور تین میں ایک یعنی تثلیث نصاریٰ کا مصداق ہے۔ مرزاقادیانی کو اس کی زندگی میں چار حضرات نے چیلنج دیا کہ آئیں میدان میں اور قصیدہ کا جواب لیں۔ ان میں: (۱)مولانا محمد حسن فیضیؒ (۲)مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ (۳)مولانا اصغر علی روحیؒ (۴)مولانا حاجی محمد یونسؒ وتاولی شامل تھے۔ مرزاقادیانی نے سامنے کیا آنا تھا، اس لئے کہ چمگادڑ کبھی سورج کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ کر پایا ہے نہ کر پائے گا۔ اسی طرح چار حضرات نے مرزاقادیانی کے قصیدہ کا جواب لکھا۔ (۱)مولانا قاضی ظفرالدینؒ (۲)مولانا اصغر علی روحیؒ (۳)مولانا حکیم غنیمت حسین اشرفیؒ (۴)مولانا میر محمد ربانیؒ۔ باقی جن حضرات نے مرزاقادیانی کے قصیدہ کی اغلاط جمع کیں وہ تو بہت سارے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے: ۱… مولانا فیضی کا قصیدہ مہملہ: مولانا محمد حسن فیضیؒ چکوال کے معروف قدیمی قصبہ ’’بھیں‘‘ میں ۱۸۶۰ء میں پیدا ہوئے۔ مولانا محمد حسن فیضیؒ نے اپنے چچازاد بھائی مولانا کرم الدینؒ کے ساتھ مل کر تعلیم دین حاصل کی۔ مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ، مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ اور مولانا قاضی حمیدالدین لاہوریؒ ایسے حضرات کے آپ شاگرد تھے۔ مولانا محمد حسن صاحبؒ عربی زبان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ بے نقط عربی نظم ونثر لکھنے پر قادر تھے۔ اس لئے ’’فیضی‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے۔ مولانا فیضی مدرسہ نعمانیہ لاہور میں علوم عربیہ کے اعلیٰ درجہ کے عرصہ تک مدرس رہے۔ مولانا سید پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۱ء جمعہ کے روز وصال فرمایا۔ مرزاقادیانی کے قصیدہ اعجازیہ (اعجاز احمدی) لکھنے سے چار سال قبل مولانا فیضی مسجد حسام الدین سیالکوٹ میں ۱۳؍فروری ۱۸۹۹ء کو مرزاغلام احمد قادیانی سے ملے اور یہ قصیدہ پیش کیا۔ جسے دیکھ کر مرزاقادیانی کے حواس کی سٹی گم ہوگئی۔ ایسے مخبوط العقل ہوا کہ ’’یتخبطہ الشیطان من المسّ‘‘ کا مصداق ہوگیا۔ اس کی تفصیل قصیدہ کے شروع میں مصنف کے ہاتھ سے لکھی ہوئی موجود ہے۔ وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔