احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مرزائی اعجاز کی حقیقت کے خلاف چھ وجوہات مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ اس نے کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ کا اردو مضمون اور عربی قصیدہ اور اشتہار انعام اور مولوی محمد حسین بٹالوی ومولوی عبداﷲ چکڑالوی کے باہمی مباحثہ پر ریویو صرف پانچ ایام میں لکھا ہے۔ گویا کہ یہی سالم کتاب جو ایک سو گیارہ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ ۸؍نومبر ۱۹۰۲ء سے شروع ہوکر ۱۲؍نومبر ۱۹۰۲ء کو پانچ ایام کے اندر ختم کر لی گئی ہے اور اگر یہی بات ہے اور اس کا مؤلف ایک صاحب اعجاز آدمی بن سکتا ہے۔ تو واقعات اس کے خلاف شہادت مہیا کرتے ہیں۔ جیساکہ چند وجوہات بطور ذیل ہیں۔ اوّلاً… یہ کہ مرزاقادیانی نے یہ کتاب ۱۵؍نومبر ۱۹۰۵ء کو مطبع ضیاء الاسلام قادیان سے تین دن کے اندر چھپوا کر شائع کر دی۔ گویا کہ قادیان کے اسی مطبع نے سالم کتاب مذکور کو تین ایام کے اندر اپنے کاتب سے لکھوا کر چھپوا کر دی۔ یعنی کتاب مذکور کا سالم مضمون مرزاقادیانی نے پانچ ایام میں تالیف کر لیا اور مطبع مذکور نے کتاب کے سالم مضمون کو صرف تین ایام میں لکھوا کر چھاپ لیا۔ لہٰذا مرزائی مطبع خود مرزاقادیانی سے دو قدم آگے نکل گیا اور اس کو عبرتناک ہزیمت میں گراکر دم لیا۔ ان حالات کے پیش نظر معجزہ قائم کرنے کا دعویٰ مطبع ضیاء الاسلام ہی کرسکتا ہے۔مرزاقادیانی نہیں کر سکتا اور مسیح موعود بھی مطبع قادیانی بن سکتا ہے۔ مرزاقادیانی نہیں بن سکتا۔ دراصل بات یہ ہے کہ نہ مرزاقادیانی نے یہ کتاب پانچ ایام میں لکھی ہے اور نہ اس کے مطبع نے تین دن کے اندر سالم کتاب لکھوا کر چھاپی ہے۔ بلکہ کتاب مذکور کی تالیف وترتیب پر مؤلف کتاب نے کافی مدت صرف کی ہے اور اس کی طباعت واشاعت پر بھی ایک طویل عرصہ صرف ہوا ہے۔ لیکن ازراہ خیانت کافی مدت کو قلیل مدت میں اور طویل عرصہ کو قلیل عرصہ میں ظاہر کیاگیا ہے۔ ثانیاً… یہ کہ اس کتاب کا اکثر حصہ پہلے سے لکھا ہوا مرزاقادیانی کے پاس موجود تھا اور اس کو اس حصہ کے شائع کرنے کا موزوں ومناسب موقعہ میّسر نہ تھا اور وہ اس کی تلاش میں مضطرب تھا کہ اتفاق سے اس کو مباحثہ مدّ کا موقعہ مل گیا۔جس پر اس نے پیشتر لکھے ہوئے حصہ کو واقعات مدّ سے پیوستہ کر کے شائع کر دیا۔ وجہ یہ ہے کہ اسی مناظرۂ مدّ میں صرف مولانا ثناء اﷲ صاحب موجود تھے۔ باقی زیر تنقید علماء وفضلاء ازقسم سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی، علی حائری صاحب، مولوی اصغر علی روحی اور قاضی ظفرالدین صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب حاضرین مباحثہ میں سے نہیں تھے۔ بلکہ یہ