احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اصل عبارت یوں ہے: ’’یعیسیٰ انی متوفیک من الذین کفروا ورافعک الیّٰ من الذین کفروا ومطہرک من الذین کفروا‘‘ چنانچہ جب یہاں پر لفظ توفی کا صلہ حرف من لفظاً موجود ہے تو وہاں پر بھی لفظ توفی کا صلہ حرف من معناً اور حذفاً موجود ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کے اندر آیت: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا‘‘ میں بھی لفظ توفی کا صلہ حرف من محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے: ’’اﷲ یتوفی الانفس من ابدانہا حین موتہا (الآیہ)‘‘ جب اﷲتعالیٰ بوقت موت روحوں کو ان کے ابدان سے پورا پورا وصول کرتا ہے تو مرنے والوں کی ارواح کو روک لیتا ہے۔ ان کے ابدان سے اور پھر وہ اپنے ابدان میں واپس آجاتی ہیں۔چونکہ دیگر مفسرین نے مذکورہ بالا توجیہ کو صراحۃً ذکرنہیں کیا۔ اس لئے یہی توجیہہ میرا ایک علمی نشان ہے۔ عذر ہفدہم یہ ہے کہ آیت: ’’وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ کے اندر خدا نے سب نبیوں کی وفات ایک مشترک لفظ ’’خلت‘‘ میں ظاہر کر دی اور حضرت عیسیٰ کے لئے کوئی خاص لفظ استعمال نہیں کیا کہ وہ اسی لفظ میں شامل نہ رہے۔ (اعجاز احمدی ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۱۲۶) الجواب اوّلاً خلت کا معنی بعث ہے نہ کہ موت۔ اگر موت معنی لیں بھی تو یہ ہے کہ آیت ہذا اکثریت کی بنیاد پر رسولوں کی وفات کا اظہار کرتی ہے۔ کیونکہ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے پیش نظر چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی مقام اقلیت میں تھی۔ اس لئے اس کے لئے کوئی استثنائی لفظ نہیں لایا گیا۔ کیونکہ ’’للاکثر حکم الکل‘‘ اکثریت کو حکم کل ملتا ہے اور ’’القلیل کالمعدوم‘‘ اقلیت کالعدم سمجھی جاتی ہے۔ بنابرآں قرآن عزیز نے اقلیت کی بناء پر موت عیسیٰ کا استثناء نہیں کیا۔ الجواب ثانیاً یہ ہے کہ واقعی آیت ہذا بلفظ ’’خلت‘‘ تمام انبیاء کی وفات پر مشتمل ہے۔ لیکن عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر تمام انبیاء ورسل حقیقتاً وفات یافتہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام صرف حکمی مردہ بمعنی تارک وطن ہے۔ کیونکہ مدت دراز کے تارک وطن کو حکماً مردہ اور وفات یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے