احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مثلہ وادعوا شہداء کم من دون اﷲ ان کنتم صٰدقین (بقرہ:۲۳)‘‘ {اگر تم لوگ اس کتاب پر شک وشبہ رکھتے ہو جو ہم نے اپنے عبد کو دی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت لے آؤ اور خداتعالیٰ کے بغیر اپنے حاضر فضلاء کو بھی بلا لاؤ۔ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔} چنانچہ مخالفین قرآن نے قرآن مجید کا یہ خفیف اور ہلکا سا مطالبہ بھی پورا نہ کر سکے جس پر قرآن حکیم لاجواب رہا اور اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوگیا۔ ان حالات میں اگر مرزاقادیانی عامل قرآن اور عالم قرآن تھا۔ جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے تو وہ بھی قرآن کی اتباع میں اپنے مطالبہ کو تین اقساط میں تقسیم کر کے پہلے پہل مکمل کتاب کی مثال لانے کو کہتا۔ اگر اس کے مخاطبین ومعاندین اس سے عاجز وناتواں رہتے تو پھر ان کو نصف کتاب کی مثال لانے کی فرمائش کرتا۔ اگر وہ اس سے بھی قاصر رہتے تو پھر ان کو تہائی کتاب کی مثال لانے کوکہا جاتا۔ اگر وہ اب بھی ناکام ونامراد رہتے تو پھر یہ کتاب ایک اعجازی کتاب بن جاتی اور مرزاقادیانی صاحب اعجاز قرار پاتا۔ لیکن اس نے اس لطیف تجویز سے انحراف کر کے اپنے کو تارک قرآن ثابت کر دیا۔ ’’آنکہ خود گم ست کرا رہبری کند‘‘ والا معاملہ ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی اس کتاب کے اندر مولوی ثناء اﷲ وغیرہ کو متعدد بار تارک قرآن کا خطاب دیا ہے۔ لیکن دراصل خود یہی شخص تارک قرآن اور منحرف عن القرآن ہے۔ خامساً… یہ کہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب کے اندر اسلامی جہاد السیف سے انکار کر کے صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ: ۱… ’’یہ بات تو بہت اچھی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کی جائے اور جہاد کے خراب مسئلہ کے خیال کو دلوں سے مٹا دیا جاوے اور ایسے خون ریز مہدی اور خون ریز مسیح سے انکار کیا جائے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۴، خزائن ج۱۹ ص۱۴۴) مضٰی وقت ضرب المرہفات ودفوہا وانّا ببرہان من اﷲ ننحر ۲… تلواروں کے چلانے کا وقت گذر گیا اور ہم خدا کی برہان سے منکروں کو ذبح کرتے ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۷۳، خزائن ج۱۹ ص۱۸۶) چنانچہ جب حوالہ جات بالا کے پیش نظر جہاد اسلام حرام وقبیح ہوکر قابل عمل نہیں رہا تو پھر مرزاقادیانی نے اپنے قصیدہ کے اندر جہاد سیفی سے متعلقہ الفاظ کو اپنے اوپر اور اپنے قصیدہ کے اوپر کیوں استعمال کیا ہے؟ حالانکہ حرام شدہ چیز کے تمام متعلقات بھی حرام وممنوع قرار پاتے ہیں