احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
مرزاقادیانی نے حرام وقبیح قرار دے کرمنسوخ کر دیا۔ کیونکہ جہاد میں عام طور پر جان کی قربانی دینی پڑتی ہے اور پھر اجاڑنے والی مکروہ چیز سے مراد تحریک مرزائیت کا اجراء ونفاذ ہے۔ کیونکہ اسی تحریک کی بنیاد تنسیخ جہاد اور انکار ختم نبوت پر کھڑی کی گئی ہے اور پھر اس تحریک کا سال آغاز بھی بموجب اقرار مرزا ۱۲۹۰ھ بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ سابقاً آچکا ہے۔ جاننا چاہئے کہ آسمانی کتابوں کی طرح زمین نے بھی مرزاقادیانی کے خلاف شہادت دی ہے۔ کیونکہ وہ دارالحرب ہندوستان میں نبی ومسیح بنا اور اسی دارالحرب میں مرکر مدفون ہوا اور اس کو بذریعہ جہاد اسی دارالحرب کو دارالاسلام میں تبدیل کرنے کی توفیق نہ ملی۔ عذر سوم یہ ہے کہ: ’’وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہوگئے اور پیش گوئی آیت کریمہ ’’واذ العشار عطلت‘‘ پوری ہوئی اور پیش گوئی حدیث ’’ولیترکن القلاص فلا یسعیٰ علیہا‘‘ نے اپنی پوری پوری چمک دکھادی۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸) جواب اوّلا یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے لفظ عشار کا معنی اونٹ کیا ہے۔ جو غلط ہے اور لغات عرب کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس لفظ کا معنی لغۃً دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں ہے اور بمعنی اونٹ نہیں ہے جیساکہ المنجد میں ہے: ’’العشار جمع عشراء والعشراء من النوق التی مضٰی لحملہا عشرۃ اشہرٍ‘‘ عشار عشراء کی جمع ہے اورعشرآء اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو دس ماہ کی حاملہ ہو۔ ثانیاً یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالاکا وہ مفہوم صحیح نہیں ہے جو مرزاقادیانی نے سمجھا ہے بلکہ درست مفہوم یہ ہے کہ قرب قیامت میں دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں کے حمل بوجہ رعب قیامت گر جائیں گے اور آئندہ کے لئے ان میں حاملہ ہونے کی صلاحیت باقی نہیں رہے گی اور پھر منقولہ حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ سفید رنگ کی نوجوان اونٹنیاں بیکار اور ناقابل حمل ہو جائیں گی اور ان کے حاملہ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ قیامت کے رعب وخوف سے ان کے حاملہ ہونے اور رہنے کی صلاحیت مفقود ہو جائے گی اور وہ اولاد پیدا کرنے سے بیکار ہو جائیں گی۔ چنانچہ قلاص لغۃً قلوصۃ کی جمع ہے اور معنی لمبی ٹانگوں والی جوان اونٹنی ہے۔ جیسا کہ قرآن عزیز کی آیت ذیل تصریح وتوضیح کرتی ہے اور آیت بالاوحدیث بالا کی تائید کرتی ہے۔