احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
کو عطائے ربانی اور موہبت آسمانی کہا ہے اور ظہور نشانات کو نبوت ورسالت کا نتیجہ اور ثمر گردانا ہے۔ دیکھئے بی بی مریم طاہرہ اور آصف بن برخیا وزیر سلیمان علیہ السلام سے باوجود غیرنبی وغیر رسول ہونے کے نشانات ظاہر ہوئے۔ لیکن انہوں نے ان نشانات کی بنیاد پر اپنے کو نبی ورسول نہیں کہا۔ بنابرآں مرزاقادیانی کا ظہور نشانات کی بنیاد پر اپنے کو نبی ورسول اور مسیح ومہدی کہنا صحیح نہیں ہے۔ ثانیاً… یہ کہ مجھ ناکارہ اور کمتر خادم اسلام کی تائید میں چند ایسے نشانات ظاہر ہوئے ہیں جو مرزاقادیانی کے نشانات سے بدرجہا بالاتر اور زیادہ عبرتناک ہیں۔ ان کے مقابلے میں مرزائی نشانات ایک ردی کی ٹوکری کا سرمایہ ہیں۔ قارئین کرام دونوں نشانات کو پڑھیں اور انصاف کے ساتھ ان کا موازنہ کریں۔ چند محمدی نشانات اور ان کے نتائج نشان اوّل یہ ہے کہ ہمارے علاقہ کے ایک نامور عالم وفاضل اور اس کے ایک ادیب وشاعر شاگرد کے ساتھ (جن کے ناموں کا اظہار میں نے مناسب وموزوں نہیں سمجھا) کسی ادبی بات پر میری خط وکتابت شروع ہوگئی۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ میں سال ۱۹۲۵ء میں جامعہ عباسیہ بہاول پور میں زیرتعلیم تھا اور ادبی جھگڑوں سے الگ تھلگ رہ کر خاموش زندگی بسر کر رہا تھا۔ جب ہماری یہی ادبی مکاتبت طول پکڑ گئی اور دونوں، استاذ وشاگرد بالکل ساکت ولاجواب ہوگئے تو انہوں نے مجھے گلستان سعدی کے درج ذیل دو اشعار لکھ کر بھجوادئیے اور خط وکتابت بندکر دی۔ توانم اینکہ نیازارم اندرون کسے ولے حسود راچہ کنم کہ زخود برنج درست میں یہ کر سکتا ہوں کہ کسی کا دل نہ دکھاؤں لیکن حاسد کو کیا کروں کہ وہ خود تکلیف میں ہے بمیرتا برہی اے حسود کیں رنجیست کہ از مشقت اوجز بمرگ نتواں رست اے حاسد مر جا کیونکہ حسد ایسا دکھ ہے کہ مرے بغیر اس کی مشقت سے چھٹکارا نہیں میں ان کا بہ آخری خط پڑھ کر بہت پریشان ہوا اور سمجھ گیا کہ یہ دونوں بزرگان مجھے اپنا حاسد سمجھتے ہیں اور اپنی موجودگی میں میری موت کے متمنی ہیں۔ میں نے اﷲتعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ان کو درج ذیل شعر لکھ کر بھجوادیا اور خداتعالیٰ کے فیصلہ کی انتظار کرنے لگا۔ مردماں میر، میرمی گویند من نہ میرم مردماں میرند