احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
شدت کا جواب شدت سے مرزاقادیانی نے اپنی زیر جواب کتاب کے اندر اپنے مخاطب علماء وفضلاء کے علمی مقام اور ذاتی وقار کا قطعاً لحاظ نہیں کیا۔ بلکہ ان کو کمینہ اور فرومایہ اور اوباش اور گانڈو اور مفعول تک بھی کہہ دیا۔ مرزاقادیانی کا یہ کردار اور غیرمہذب اور غیرشریفانہ ہے۔ چنانچہ اس قسم کے کردار کا مالک آدمی ایک دجال وبطال شخص توہوسکتا ہے۔ لیکن وہ نبی ورسول یا مہدی ومسیح ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اس کو اعداداً بطور ذیل کہا جاسکتا ہے۔ (غلام احمد/۱۱۲۴) ’’البطال العظیم/۱۱۲۴‘‘ اور ’’میرزاقادیانی/۴۳۴‘‘، ’’المسیح المردود/۴۳۴‘‘ یعنی غلام احمد بڑا بطال ہے اور میرزاقادیانی مردود مسیح ہے۔ میں قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ مرزاقادیانی کے منقولہ بالا شعر کے فقرہ ’’واملوا کمثلی‘‘ سے ہمیں صاف طور پر اجازت میسر ہے کہ ہم بھی اس کو اس کی مانند لکھنا اور گالی کا جواب گالی میں اور بکواس کا جواب بکواس سے پیش کریں۔کیونکہ اس نے بلاریب یہی کہا ہے کہ تم بھی میری طرح تحریر کرو اور میرے نقش قدم پر گامزن ہو جاؤ اور پھر اس مرزائی اجازت کے علاوہ قرآن عظیم بھی ہم کو یہ اجازت اور جواز دیتا ہے کہ ہم بھی شدت کا جواب شدت سے دیں اور سختی کا بدلہ سختی سے پیش کریں اور گالیوں کے عوض گالیاں سنائیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: الف… ’’لا یحب اﷲ الجہر بالسوء من القول الّا من ظلم وکان اﷲ سمیعاً علیماً (النساء:۱۴۸)‘‘ {خداتعالیٰ بری بات کے علانیہ کہنے کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن مظلوم کے لئے ایسا کرنے کو پسند کرتا ہے اور اﷲ اس کی سنتا اور جانتا ہے۔} یعنی اگر مظلوم کی طرف سے بری باتوں اور گالیوں کا برملا اظہار ہو جائے تو وہ عند اﷲ قابل گرفت نہیں ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ اس کی مظلومیت اور ستم رسیدگی کوبخوبی سنتا اور جانتا ہے کہ یہ مظلوم آدمی مجبور ہوکر اپنے فطرتی تقاضا سے ایسا کرنے پر اتر آیا ہے اور اس نے اپنے مظلوم ومغموم دل کی بھڑاس نکال کر قدرے آرام وسکون پایا ہے اور مظلوم آدمی کا سکون وآرام عند اﷲ پسندیدہ اور محبوب ومرغوب عمل ہے۔ ب… ’’وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص (مائدہ:۴۵)‘‘ {ہم نے تورات کے اندر ان پر لکھ دیا ہے کہ جان کے عوض جان، آنکھ کے عوض آنکھ، ناک کے عوض ناک، کان کے عوض کان اور دانت کے عوض دانت توڑا جائے اور زخموں کا بدلہ بھی لیا جائے۔}