احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
فرماتے رہے کہ میں نبی نہیں،نہ رسول ہوں، نہ میں نے یہ دعویٰ کیا۔ فرشتوں کو، لیلتہ القدر کو، معراج کو، احادیث کو اور قرآن کریم کو مانتا ہوں۔ مزید برآں عقائد اسلامیہ کا اقرار کرتے رہے۔ دوسرے دن حضرت مسیح کی وفات کی نسبت دلیل مانگی تو آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ اور ’’انی متوفیک‘‘ پڑھ کر سنائی۔ معنے کے وقت علم عربی سے تجرد ظاہر ہوا۔ یہ پوچھا گیا کہ آپ کیوں مثیل مسیح موعود ہیں؟ آپ سے بہتر آج کل بھی اور پہلے کئی ایک ولی عالم گزرے ہیں۔ وہ کیوں نہیں؟ اور آپ کیوں ہیں؟ تو فرمایا میں گندم گوں ہوں اور میرے بال سیدھے ہیں۔ جیسے کہ مسیح اﷲ کا حلیہ ہے۔ افسوس اس لیاقت پر یہ غل؟ مرزاقادیانی وقت ہے۔ توبہ کر لیجئے۔ اخیر پر میں مرزقادیانی کو اشتہار دیتا ہوں کہ اگر وہ اپنے عقائد میں سچے ہوں تو آئیں۔ صدر جہلم میں کسی مقام پر مجھ سے مباحثہ کریں۔ میں حاضر ہوں۔ تحریری کریں یا تقریری! اگر تحریر ہو تو نثر میں کریں۔ یا نظم میں۔ عربی یا فارسی یا اردو۔ آئیے سنئے اور سنائیے۔‘‘ راقم: ابوالفیض محمد حسن فیضی حنفی ساکن بھیں ضلع جہلم اب بھی ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ مرزاقادیانی اس قصیدہ کا جواب اس صنعت کے عربی قصیدہ کے ذریعہ ایک ماہ تک لکھنے کی طاقت رکھتے ہیںیا نہیں؟ ہر دو قصائد کا موازنہ پبلک خود کر لے گی۔ لیکن تہذیب ومتانت سے جواب دیا جائے۔ اس کے بعد پھر دوسری خطا فیضی مرحوم سے یہ ہوئی کہ ایک مطبوعہ چٹھی کے ذریعہ مرزاقادیانی کو بڑی متانت سے ان کے اس ادّعاء پر کہ ان کے کلام میں قران کریم جیسا اعجاز ہے متنبہ کیا کہ آپ کا دعویٰ بچند وجوہ غلط ہے اور نیز چیلنج کیا کہ اگر آپ میں عربی لکھنے کی طاقت ہے تو جہاں آپ مجھے بلائیں۔ مقابلہ کے لئے حاضر ہوں۔ اس چٹھی کا جواب بھی مرزاقادیانی کی طرف سے فیضی فرحوم کی زندگی میں ہر گز نہ ملا۔ نہ مرزاقادیانی کی طاقت مقابلہ ہوئی۔ وہ چٹھی بھی سراج الاخبار میں چھپی جس کی نقل درج ذیل ہے۔ نقل چٹھی فیضی مرحوم مطبوعہ ’’سراج الاخبار‘‘ ۱۳؍اگست ۱۹۰۰ء ص۶ مکرمی مرزاقادیانی زید اشفاقہ! والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ! آپ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کے مطبوعہ اشتہار اوراس کے ضمیمہ (مجموعہ اشتہارات ج۳) کے ذریعہ پیر مہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ شریف اور دیگر علماء کو یہ دعوت کرتے ہیں کہ لاہور میں آکر میرے ساتھ بہ پابندی شرائط مخصوصہ، فصیح وبلیغ عربی میں قرآن کریم کی چالیس آیات یا اس قدر سورۃ کی تفسیر لکھیں۔ فریقین کو ۷گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ ملے اور ہر دو تحریرات ۲۰ اوراق سے کم نہ ہوں۔ آپ تجویز کرتے ہیں کہ ان ہر دو تحریرات کو تین