احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
قصیدہ اعجازیہ آپ تو اس کانام ’’قصیدہ اعجازیہ‘‘ رکھتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ فصاحت وبلاغت کے ایسے اعلیٰ مرتبہ پر ہے کہ کوئی شخص اس جیسا لکھ نہیں سکتا۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو خود آپ کو بھی اس اعجاز کا یقین نہیں۔ بھلا اگر یقین ہوتا تو بیس روز کی مدت کی کیوں قید لگاتے۔ کیا قرآن شریف کے اظہار اعجاز کے لئے بھی کوئی تحدید ہے؟ کسی آیت تحدی میں کفار مخالفین سے کہاگیا ہے کہ اتنے دنوں میں یا اتنے مہینوں میں اس کی مثل لاؤ گے تو مقابلہ سمجھا جائے گا اور ’’اگر اتنے دنوں سے زائد ایام گزرے تو ردی میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۹۰، خزائن ج۱۹ ص۲۰۵) پھر طرفہ یہ کہ صرف بیس روز کی تصنیف کے قلمی مضمون سے جو مصنف کی اصل لیاقت کا معیار ہے کوئی شخص مرزاقادیانی کو جیت نہیں سکتا۔ بلکہ اس معجز نمائی میں لکڑی اور لوہے کو بھی دخل ہے کہ وہ مضمون چھاپ کر کتاب تیار کر کے حضرت کی خدمت میں پہنچا دے۔ جس سے یہ مراد ہے کہ نہ کسی مولوی صاحب کے ہاں مرزاقادیانی کی طرح پریس اور منشی گھر کے ہوں گے اور نہ کوئی آپ سے مبلغات (وہ بھی روحانی اور معنوی) لے سکے گا۔ کیا ہی معجزہ ہے کہ پریس کے کام کو بھی معجزہ کا جزو بنایا جاتاہے؟ تاکہ اگر کسی صاحب میں ذاتی لیاقت وقابلیت ہو بھی تو بوجہ اس کے کہ اس کے پاس پریس کا انتظام ایسا نہیں جو قادیانی پریس کی طرح صرف مرزاقادیانی ہی کا کام کرتا ہو۔ تو بس اس کی لیاقت بھی ملیا میٹ ضائع اور برباد ہے۔ وہ بھی مرزاقادیانی کو مسیح موعود مان لے۔ کیونکہ اس کے پاس پریس نہیں اور مرزاقادیانی کے پاس پریس ایک نہیں دو تین ہیں۔ ناظرین! یہ ہیں مرزاغلام احمد قادیانی کی بھول بھلیاں۔ جن سے بہت کم لوگ واقف ہوسکتے ہیں۔ خیر ہمیں اس سے بحث نہیں ہم ان کی حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب ہم آپ کے اعجازی قصیدے کا عجز بتلاتے ہیں۔ آپ کے قصیدے میں ہر قسم کی غلطیاں ہیں۔ صرفی، نحوی، عروضی وغیرہ۔ آپ کے قصیدے کا مجریٰ (حرکت روی) ضمہ ہے۔ چنانچہ پہلا شعر آپ کا یہ ہے: ایا ارض مدقد دفاک مدمر دارداک ضلیل واعزاک موغر حالانکہ مندرجہ ذیل اشعار میں اقوالازم آتا ہے۔ یعنی اخیر کی حرکت بجائے ضمہ کے کسرہ ہو جاتی ہے اور اقواسخت عیب ہے۔ محیط الدائرہ میں ہے: ’’ان تغیر المجریٰ الیٰ