احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
چنانچہ مرزاقادیانی اپنی اسی بددعا کے چھ سال بعد ہلاک ہوگیا اور اس کے مذکورہ مخالفین عرصہ دراز تک زندہ اور مرفہ الحال رہے۔ چونکہ زیر جواب کتاب کا مؤلف (غلام احمد قادیانی) خود بذاتہ اوباش زندگی سے ہمکنار رہا۔ اس لئے اعداداً بجائے اپنے مخالفین کے وہ خود ہی اعداداً اوباش شخص ثابت ہوا اور اس کے مخالفین اوباش شخصیت کی زد سے محفوظ ومامون رہے۔ کیونکہ اعدادی طور پر صرف ’’غلام احمد قادیانی/۱۳۰۰‘‘ اور ’’اوباش شخص/۱۳۰۰‘‘ کے اعداد برابر ہیں جو پورے تیرہ صد (۱۳۰۰) ہیں اور اس کے مخالفین اسی اعدادی اتحاد سے الگ تھلگ رہ جاتے ہیں اور اوباش اشخاص نہیں بنتے۔ عذر شانزدہم یہ ہے کہ: ’’آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ کی موجودگی میں خداتعالیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں (نعوذ باﷲ) کاذب ٹھہرتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۷، خزائن ج۱۹ ص۱۲۵) الجواب یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی فہم وفراست آیت ہذا کے سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ جس سے اس کو خداتعالیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذب نظر آئے۔ وجہ یہ ہے کہ امت عیسیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجوگی میں بگڑ کر عیسیٰ پرست بن گئی تھی اور اس کو خدا یا ابن اﷲ ماننے لگے تھے۔ جیسا کہ آیت ذیل: ’’وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم‘‘ {میں جب تک ان میں موجود رہا ان کے خلاف شاہد ونگران رہا۔} سے واضح ہے۔ چنانچہ ’’شہدت علیہ‘‘ اور ’’کنت علیہ شہیداً‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ میری نگرانی اور دیکھ بھال اس کے خلاف رہی اور وہ میرے خلاف ارادہ ومشاہدہ کام کرتا رہا۔ جیساکہ آیت ذیل سے وضاحت ہوتی ہے۔ ’’وشہدوا علیٰ انفسہم انہم کانوا کٰفرین‘‘ انہوں نے اپنے خلاف یہ شہادت دی کہ وہ خود کافر ہیں۔ بنابرآں زیربحث آیت کا مطلب یہ رہا کہ امت عیسیٰ منشائے عیسیٰ کے خلاف کام کرتی رہی اور حضرت عیسیٰ اپنی موجودگی میں ان کی اصلاحات میں کوشاں رہے۔ مگر وہ بدستور حضرت عیسیٰ کو خدایا ابن خدا کہتے رہے۔ جیسا کہ انجیل متی باب ۱۶ آیت ۱۵ سے پایا جاتا ہے۔ ’’اس (عیسیٰ) نے ان (شاگردوں) سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو، شمعون پطرس نے جواب میں کہا تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔‘‘