احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
بددعا میری ہے اک تیر قضا اس سے اس کا بچ نکلنا ہے محال یہ گیا دوزخ کی جلتی آگ میں اب نہیں اس کو نکلنے کی مجال تو ہے شیطاں ظل شیطاں ہے یہی تو ہے اس کی اصل یہ تیری نقال دور ہو جا مجھ سے اے شیطان لعیں ورنہ تجھ پر بھی پڑے گا یہ نکال دور بھاگا اس سے شیطان بچ گیا ورنہ اس کو گھیر لیتا یہ ابال ہے بہشتی مقبرہ نام جہنم کا مقام کیونکہ زقوم اس میں آیا سر نکال میں نے خود دیکھا ہے داں پر یہ درخت یہ فقط میرا نہیں ہے اک خیال دیکھ کر زقوم کو میں نے کہا کہ یہاں پر ہے بچھا دوزخ کا جال میں نکل آیا وہاں سے زود تر کیونکہ مجھ کو تھی ڈراتی یہ شکال پڑھنے والو گر ہو تم کو اس میں شک جا کے خود دیکھو اسی کے خدوخال ہے حکیم بھیروی مرزا کے ساتھ جیسے یک جا مرد ہے اور اس کی زال مرد و بیوی ہیں یہاں پر ساتھ ساتھ تا قیامت ان کو حاصل ہے وصال عذر بست وسوم یہ ہے کہ: ’’مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا کہ لفظ ’’عجب‘‘ کا استعمال بصلہ لام نہیں آتا اور صرف بصلہ ’’من‘‘ آتا ہے اور مرزاقادیانی نے بصلہ لام کی مثالیں دکھا کر اس کو رسوا وذلیل کیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۴، خزائن ج۱۹ ص۱۴۴) الجواب یہ ہے کہ غالباً مولوی صاحب کی رائے قلت وکثرت استعمال پر مبنی تھی۔ یعنی ان کا خیال تھا کہ یہ لفظ بصلہ من کثیر الاستعمال ہے اور بصلہ لام نادر الوقوع ہے اور مرزاقادیانی نے مولوی صاحب کے اسی خیال کو مکمل نفی کی شکل دے دی اور شور مچا دیا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی عربیت سے کورا ہے اور مولویت کا صرف ایک خالی ڈھول ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں بھی یہی کیفیت ہے کہ: ’’عجب‘‘ بصلہ لام صرف ایک آیت میں مستعمل ہے اور بصلہ من تقریباً دو آیات میں زیر استعمال آیا ہے جیسے: ’’اکان للناس عجباً ان اوحینا۰ کانوا من اٰیاتنا عجباً۰ اتعجبین من امراﷲ‘‘ {کیا ہمارا وحی کرنا لوگوں کے لئے تعجب ناک ہے۔ ان لوگوں کو ہمارے آیات سے تعجب ہوتا تھا۔ کیا تجھ کو خداتعالیٰ کے حکم سے تعجب ہوتا ہے؟}