احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
میں شائع تک نہ کیا تاکہ ناظرین کو موقع طبع آزمائی کا ملتا۔ اس پر یہ فیاضی ہے کہ تمام علمائے ہند کو اذن عام دیا جاتا ہے کہ آپس میں مشورہ کر کے اس کا جواب لکھیں۔ حالانکہ ان لوگوں کی نگاہ سے ہنوز قصیدہ ہی نہیں گزرا۔ اب میں بذریعہ تحریر ہذا مرزاقادیانی سے گذارش کرتا ہوں کہ آپ فوراً قصیدہ مذکور میرے نام روانہ فرمائیں۔ یا اخبار میں شائع فرماویں اور اپنے اعجاز کے زمانے کو ذرا سی وسعت بخشیں۔ جس دن وہ قصیدہ میرے پاس پہنچے گا اس سے بیس دن کے اندر انشاء اﷲ تعالیٰ اس سے بہتر جواب آپ کی خدمت میں حاضر کیا جائے گا۔‘‘ (پیسہ اخبار مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء، الہامات مرزا ص۹۴) اس کا جواب شاید مرزاقادیانی کی طرف سے یہ دیا جائے کہ دس دسمبر تک بیس دن کی میعاد ختم ہو گئی۔ اس کے بعد وہ کسی کے کہنے سننے کو نہیں سن سکتے۔ مولانا ثناء اﷲ کی طرف سے چیلنج قبول تو ہماری طرف سے اس کا جواب الجواب یہ ہے کہ میعاد کے اندر مولوی ثناء اﷲ صاحب نے ۲۱؍نومبر ۱۹۰۲ء کو ایک اشتہار دیا جس کا خلاصہ ۲۹؍نومبر کے پیسہ اخبار لاہور میں بھی چھپا تھا کہ: ’’آپ ایک مجلس میں اس قصیدہ اعجازیہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کر دیں تو پھر میں آپ سے زانو بزانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زورلگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہیں محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کا منہ ہے ادھر ہی خداکا منہ ہے (جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے) تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں آکر طبع آزمائی نہ کریں بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی ؎ بنایا آڑ کیوں جورو کا چرخہ نکل! دیکھیں تری ہم شعر خوانی حرم سراہی سے گولہ باری کریں۔ اس کا جواب باصواب آج تک نہ آیا کہ ہم میدان میں آنے کو تیار ہیں۔‘‘ (الہامات مرزا ص۸۷) سعید طرابلسی؟ اس کے سوا مجھے بعض اشخاص سے معلوم ہوا ہے کہ مرزاقادیانی نے اس قصیدہ کو مبلغ پانچ سو روپیہ اجرت دے کر ایک عرب طرابلسی سے لکھوایا ہے۔ وہ عرب عرصہ تک حیدرآباد دکن