احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ہو۔ اس کے اوّل صفحہ میں دو سطر معمولی مضمون کی عبارت صحیح نہ لکھے اور ایسی غلطی کرے جو کم فہم بھی یقینی طور سے معلوم کر سکیں۔ جن کو عربی صرف ونحو سے واقفیت ہے اور جنتریاں دیکھ لیا کرتے ہیں۔ وہ ملاحظہ کریں۔ مرزاقادیانی کا مطلب تو یہ ہے کہ اعجاز المسیح میں نے ستر دن میں لکھی اور انہیں دنوں میں وہ طبع بھی ہوئی اور ستر دن کی ابتداء وانتہاء بھی بیان کرنا چاہتے ہیں۔ مگر منقولہ عبارت کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ غلطیاں ملاحظہ ہوں: ۱… نہایت ظاہر ہے: ’’قد طبع فی سبعین یوما‘‘ کے یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ ستر دن میں چھاپی گئی اس عبارت سے یہ کسی طرح نہیں سمجھا جاتا کہ ان ایام میں تصنیف اور طبع دونوں کام ہوئے۔ اس مطلب کے لئے ضرور تھاکہ صنف کا لفظ زیادہ کیا جاتا۔ ۲… سیاق عبارت یہ چاہتا ہے کہ: ’’من شہر الصیام‘‘ بیان ہو سبعین کا، اس کا حاصل یہ ہوگا کہ ماہ صیام ستر دن سے زیادہ کا ہے۔ اب ناظرین اس غلط بیانی کو دیکھ لیں۔ میں نے اس غلطی سے چشم پوشی کر کے دوسرے پہلو سے ترجمہ کیا ہے۔ ۳… اگر سوق عبارت سے ’’من شہر الصیام‘‘ کے من کو ابتدائیہ کہا جائے اور یہ مطلب قرار دیا جائے کہ ماہ صیام سے رسالہ کی تالیف کی ابتداء کی گئی تو ضرور تھا کہ تاریخ بھی لکھتے۔ کیونکہ اس بات کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ستر دن میں ہم نے لکھا۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ بیان مہینے کے ساتھ تاریخ بھی لکھی جائے۔ غرضیکہ یہ تین غلطیاں ہوئیں۔ اب اگر تیسری غلطی سے چشم پوشی کی جائے اور مرزاقادیانی کی دوسری عبارت سے تاریخ معین کرنے کی نوبت آئے تو بھی کوئی تاریخ متعین نہیں ہوتی۔ سارے احتمالات غلط ہیں اس کی وجہ ملاحظہ ہو۔ ۴… مذکورہ عبارت کے بعد مرزاقادیانی تالیف اور طبع کا ہجری سال اور عیسوی سال معہ مہینے اور تاریخ کے بیان کرنا چاہتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’وکان من الہجرۃ ۱۳۱۸ھ ومن شہر النصاریٰ، ۲۰؍فروری ۱۹۰۱ء‘‘ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ جس ماہ صیام سے رسالہ لکھنے کی ابتدء ہوئی وہ ماہ صیام ۱۳۱۸ھ کا تھا۔ اس عبارت کا ناقص ہونا نہایت ظاہر ہے۔ کیونکہ مہینہ کی تعیین کے ساتھ یہاں تاریخ کا معین کرنا ضرور تھا تاکہ ستر دن کی ابتداء معلوم ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ چوتھی غلطی ہے۔