احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
غدر کے حالات بیان کئے ہیں قابل دید ہے۔ جنہیں اہل علم دیکھ کر مرزاقادیانی کے قصیدہ کو ردی میں پھینک دینے کے قابل سمجھیں گے۔ آزاد بلگرامی کے قصائد اہل علموں نے دیکھے ہیں۔ مگر مرزائی جہلاء کو علمی باتوں سے کیا واسطہ۔ وہ کیاجانیں کہ کون ذی علم کس فن کا زیادہ جاننے والا ہے؟ پہلے قصیدوں کے علاوہ مرزاقادیانی کا دعویٰ کے بعد بھی اس کے جواب میں قصیدے لکھے گئے ہیں۔ پہلا قصیدہ جوابیہ قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم نے مرزاقادیانی کی زندگی میں لکھا تھا اور ۱۹۰۷ء کے شروع میں اخبار اہل حدیث میں وہ قصیدہ چھپا ہے اور پھر ۱۹۱۳ء کے رسالہ الہامات مرزا میں اس کے باسٹھ شعر نقل کئے گئے ہیں۔ (مکمل قصیدہ اس جلدمیں دوسری جگہ موجود ہے۔ مرتب!) دوسرا قصیدہ جوابیہ نہایت ہی عمدہ اور لاجواب جو ۱۳۳۱ھ میں لکھا گیا ہے یہ قصیدہ چھ سو پچیس اشعار کا ہے۔ البتہ چھپا نہیں ہے۔ عنقریب چھپنے والا ہے۔ اہل علم اسے دیکھ کر مسرور ہوں گے۔ چند اشعار اس کے نقل کئے جاتے ہیں جن کے الفاظ ومضمون سے اہل علم مسرور ہوں گے۔ (چھپ گیا تھاہمارے مرکزی دفتر کی لائبریری میں موجود ہے۔ احتساب قادیانیت کی جلد ہذا میں ابطال اعجاز مرزا کے نام سے شامل اشاعت ہے۔ مرتب!) اہل علم اس کے اشعار کی خوبی کو ملاحظہ کریں۔ کیسا بے نظیر مضمون ان میں ہے اور جناب رسول اﷲa کے بعد نبی نہ آنے کی کیسی عمدہ وجہ بیان کی ہے اور جناب رسول اﷲa کی عظمت وشان دکھائی ہے اور مرزائیوں کی جہالت ظاہر کی ہے۔مرزاقادیانی کے قصیدہ میں سوائے اپنی تعلّی اور دوسرے علماء کی برائی کے اور کوئی مضمون نہیں ہے۔ جب یہ قصائد قصیدہ مرزائیہ سے نہایت عمدہ موجود ہیں تو مرزاقادیانی کے قصیدہ کو معجزہ کہنا آنکھوں پر پٹی باندھ کر کنوئیں میں گرنا ہے اور عوام کو فریب دینا ہے۔ ۳… تیسرا اعتراض: اس قصیدہ کے جواب کے لئے تو زیادہ سے زیادہ بیس روز کی میعاد مقرر کی تھی اور پھر اس قید شدید ہی پر بس نہیں کی۔ بلکہ یہ بھی لکھا کہ اسی میعاد میں رسالہ چھپا کر اور مرتب کراکے ہمارے پاس بھیج دیا جائے۔ یعنی اس اعجاز میں لوہے اور پتھر اور صنّاع اور کاریگروں کو بھی دخل ہے؟ اس لئے اس کے جواب میں بھی ان کو دخل ہونا چاہئے۔ محض قلمی لکھ کر بھیجناکافی نہیں ہے۔ اب جن کے قلب میں کچھ بھی انصاف کی بو ہے وہ صرف ان قیدوں میں تھوڑا سا غور کر