احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۷… آنے والے کے عہد میں جلب زرکی حرص مٹ جائے گی اور مرزاقادیانی حریص زر رہ کر جلب زر میں کوشاں رہا۔ ۸… بالفاظ دیگر آنے والا میدان جنگ سے حاصل کردہ مال غنیمت کو پانی کی طرح بہائے گا اور مجاہدین ومحتاجین کو بے نیاز اور مالامال کر دے گا اورمرزاقادیانی وصول کردہ چندہ جات کو پانی کی طرح نوش کر گیا اور غرباء کو کچھ نہ دیا۔ ۹… آنے والا ایک جنگ کو فتح کر کے سجدہ شکر بجا لائے گا اور مرزاقادیانی عمر بھر خود جنگ وجہاد کا منکر رہا۔ ۱۰… آنے والا وہی ہے جو حدیث بالا اور آیت ملحقہ کا مصداق ہے اور مرزاقادیانی کا دونوں سے تصادم ہوتا ہے۔ جواب کا منتظر: حکیم میر محمد ربانی! مرزاقادیانی نے: ’’حضرت حسان بن ثابتؓ کے درج ذیل دو شعر نقل کر کے جو ترجمہ کیا ہے اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حضرت موسیٰ بھی زندہ بن جاتے ہیں اور وہ اسی کو اپنا ایک کارنامہ سمجھتا ہے اور اس پر اتراتا ہے: کنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر من شآء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر تو اے نبیa میری آنکھوں کی پتلی تھا۔ میں تو تیری جدائی سے اندھا ہو گیا۔ اب جو چاہے میرے خواہ عیسیٰ ہو یا موسیٰ، مجھے تو تیری موت کا دھڑکا تھا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۹، خزائن ج۱۹ ص۱۲۷) دیکھئے! مرزاقادیانی نے اپنے ترجمہ سے تسلیم کر لیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں آنحضرت کی وفات تک زندہ تھے۔ بہرحال جب مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات نبوی تک زندہ مان لیا ہے تو پھر وہ قیامت تک بھی اس کے علی الرغم زندہ ہے اور قرب قیامت کو واپس آکر مرزائیت کی ناک کاٹ لے گا۔ دراصل بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ہر دو اشعار سے شاعر نبوت کا مقصد وہ لوگ ہیں جو آنحضرتa کی وفات کے وقت جمع تھے اور شاعر سے مرثیۃ النبی کہنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جس پر شاعر نے زیربحث دونوں اشعار بداہتہً وارتجالاً کہہ دے اور مطمع نظریہ تھا کہ حاضرین میں سے جو شخص چاہے مر سکتا ہے۔ لیکن مجھے پیارے نبی کی موت کا دھڑکا ہے اور دیگر آدمی کی موت کی ہرگز اور قطعاً پرواہ نہیں ہے۔