احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
دوسرے علماء کی سختی کے ساتھ مذمت کی ہے۔ اس صفحہ پر پہنچ کر لکھتے ہیں: ’’وسمیتہ اعجاز المسیح‘‘ یعنی میں نے اس کا نام اعجاز المسیح رکھا۔ اہل علم جانتے ہیں کہ مصنّفین یہ جملہ اکثر پہلے یا دوسرے صفحہ میں لکھتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی نے اپنی تفسیر کے بڑھانے کو چارجز فضول باتوں میں سیاہ کر کے یہ جملہ لکھا۔ اس حساب سے اصل تفسیر کے تقریباً آٹھ ہی جز ہوتے ہیں۔ اس لئے مقتضائے سے دیانت یہ ہے کہ اسی آٹھ جز کا اندازہ کیا جائے۔ اگر اس مقدار کا اندازہ کیا جائے گا تو فاتحہ کی تفسیر میں دو سوا دو جز سے زیادہ نہ ہوگا۔ اب اس قلیل مقدار کی تحریرکو بڑے زور سے ساڑھے بارہ جز باربار کہا جاتا ہے۔ پھر یہ ابلہ فریبی نہیں تو کیا ہے؟ خداکے واسطے خلیفہ صاحب یا اور اہل علم کہیں تو غور کر کے انصاف سے کہیں۔ مگر ان سے ایسا نہیں ہوسکتا۔ افسوس! اب خیال کیا جائے کہ جب اعلانیہ بات میں ایسا صریح دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کہنے پر کیوں کر اعتبار کر لیا جائے کہ ستر دن میں لکھی۔ جو حضرت اظہار فخر کے لئے ایسی صریح ابلہ فریبی کریں۔ ان سے ظہور اعجاز کی امید رکھنا کسی ذی عقل کاکام نہیں ہے۔ ان دونوں تفسیروں کو میں نے اس لئے پیش کیا تھا کہ یہ دونوں تفسیریں بلحاظ عمدگی مضامین اور باعتبار فصاحت وبلاغت عبارت کے اس قدر بلند پایہ ’’اعجاز المسیح‘‘ سے ہیں کہ کوئی ذی کمال ادیب ان کی فصاحت وبلاغت اور ان کے مضامین نادرہ اور مفید دیکھ کر اگر ’’اعجاز المسیح‘‘ کو دیکھے گا تو نفرتیں کرنے لگے گا اور پھر اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھے گا۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اس قابل سمجھے کہ اس کا جواب دیا جائے؟ بھائیو! اگر کچھ علم وفہم ہے تو ان صریح اسباب میں غور کرو اور خدا سے ڈر کر انصاف سے کہو کہ جب ان رسالوں کی طرف توجہ نہ کرنے کے یہ اسباب ہیں تو ان کے جواب نہ لکھے جانے سے ان کا اعجاز کیونکر ثابت ہو جائے گا۔ مرزائیوں کے جواب کا رد اس کے جواب میں بعض جہلاء یہ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے جواب میں ان کتابوں کو پیش کرنا مرے مردوں کی ہڈیاںاکھیڑنا ہے۔ ایسے ہی بیہودہ جوابوں کی وجہ سے کوئی ذی علم ان کے جواب کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اعرض عن الجاہلین پر عمل کرتا ہے۔ مگر بعض کی خیرخواہی نے خاکسار کوکسی قدر ان کی طرف متوجہ کر دیا۔ اب جنہیں کچھ علم وفہم ہو وہ ملاحظہ کریں۔ (اعجاز المسیح کے فصیح وبلیغ ہونے کا دعویٰ کیاگیا ہے اور اسے اعجاز بتایا ہے) (حقیقت الوحی ص۳۷۹، خزائن ج۲۲ ص۳۹۳)