احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
نہ کہا تو مجھ سے سن لیں کہ جب مرزائیوں کے علمی مذاق کا یہ حال ہے کہ وہ مرزاقادیانی کے قصیدہ کو اعجاز سمجھتے ہیں تو بقول شخصے: ’’اندھے کے آگے روئے اور اپنے دیدے کھوئے۔‘‘ اس کے سوا کیا حاصل۔ ورنہ مرزائیوں میں اگر اس کا مذاق ہوتا اور وہ رطب وبابس میں فرق کرتے تو ضرور اہل علم نے اس طرف توجہ کی ہوتی۔ مگر بقول… تا بد را بدروزہ باید رسانید کے موافق ایک قصیدہ تیار کیاگیا ہے جو مرزاقادیانی کے قصیدہ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ جس کو اہل علم جانچ سکتے ہیں۔ اب قادیانی حضرات اپنے قصیدہ کی غلطیاں تو دیکھ لیں اور معلوم کر لیں کہ کیسی کیسی شرمناک غلطیاں مرزاقادیانی نے کی ہیں۔ اس سے ان کے اعجاز کی قلعی تو اہل علم پر بخوبی کھل گئی۔ اس کے بعد بھی بعض قادیانی کہتے ہیں کہ اگر اس میں غلطیاں ہیں تو اس کے مقابل قصیدہ لکھنا زیادہ آسان ہے۔ اس کا جواب بھی ’’فیصلہ آسمانی‘‘ میں دیاگیا ہے۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جواب بھی ہم لکھ دیں اور آپ کے سامنے پیش کر دیں۔ مگر یہ بتائیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ آپ کے راہ راست پر آنے کی امید نہیں ہے۔ کیونکہ بارہا اس کا تجربہ ہولیا اور ایسے ایسے صریح اور بدیہی باتوں میں مرزاقادیانی کا کذب اس طرح ظاہر ہوا کہ خاص وعام کسی کو مرزاقادیانی کے کاذب ہونے میں شبہ نہیں رہا۔ مگر جس کا قلب مرزاقادیانی کی محبت سے تاریک وظلمت کدہ ہوچکا تھا وہ صاف نہ ہوا اور اس میں صداقت اور راستی کی روشنی نہ پہنچی۔ وہ اسی طرح مرزاپرست رہے۔ جس طرح بت پرست رہتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں ۱… اسی (اعجاز احمدی ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۸) میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ (مولوی ثناء اﷲ) سچے ہیں تو قادیان میں آکر کسی پیشین گوئی کو جھوٹی تو کر دیں۔‘‘ ( پھر اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸) میں لکھتے ہیں: ’’وہ قادیان میں تمام پیشین گوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے۔‘‘ اس پیشین گوئی کو دیکھا چاہے کہ نہایت زور سے مولوی صاحب کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’وہ ہرگز نہ آئیں گے۔‘‘ یہ پیشین گوئی ایسی ہے کہ ہر خاص وعام اس کا فیصلہ کر سکتا ہے اور اس کے جھوٹے اور سچے ہونے کی شہادت دے سکتا ہے۔ مگر نہایت صفائی سے یہ پیشین گوئی جھوٹی ہوئی اور مرزائیوں نے ایسی روشن شہادت کی طرف توجہ نہ کی۔ اس پیشین گوئی کے بعد ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو مولوی (ثناء اﷲ) صاحب قادیان پہنچے اور مرزاقادیانی کو بذریعہ رقعہ کے اطلاع دی۔