احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
عبارت ہے جس میں بہ کثرت جھوٹے دعوے ہیں۔ اب یہ تو نہایت ظاہر ہے کہ دو تین جز میں جھوٹی سچی باتیں اردو زبان میں بنادینا تو مشکل بات نہیں ہے۔ البتہ عربی کا قصیدہ لکھنا کمال فصاحت وبلاغت کے ساتھ مشکل ہے۔ اب اس مرزائی اعجاز پر جو اعتراضات ہوتے ہیں جن سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ اعجاز نہیں ہے بلکہ فریب ہے۔ انہیں ملاحظہ کیجئے۔ قصیدہ اعجازیہ کے معجزہ نہ ہونے کی پانچویں وجہ ۱… پہلا اعتراض اس اشتہار میں جو دعا ہے۔ (رسالہ اعجاز احمدی ص۸۸، خزائن ج۱۹ ص۲۰۲) میں اسے پیشین گوئی قرار دیا ہے۔ بہرحال وہ دعا ہے یا پیشین گوئی ہے۔ مگر ایسی عظیم الشان ہے کہ اس دعا کے قبول ہونے پر اور اس پیشین گوئی کے پورا نہ ہونے پر اپنے آپ کو مردود اور کافر قرار دیتے ہیں۔ اس لئے اس دعا کے بعد تین برس تک اس فکر وتجویز میں ضرور رہے کہ کوئی نشان تراش کر مسلمانوں کو دکھایا جائے تاکہ میں اپنے اقرار سے ملعون وکافر قرار نہ پاؤں۔ میرے خیال میں انہوں نے یہ تدبیر سوچی کہ ہندوستان میں عربی ادب کا مذاق نہیں ہے۔ اس لئے ایک عربی قصیدہ لکھوا کر اور اس کی تمہید اردو میں لکھ کر رسالہ شائع کر کے اعجاز کا دعویٰ کیا جائے۔ اسی زمانے میں ایک عرب طرابلس کی طرف کے رہنے والے ہندوستان میں آئے ہوئے تھے۔ جا بجا وہ پھرتے رہے اور حیدرآباد میں ان کا قیام زیادہ رہا ہے۔ یہ عربی کے شاعر تھے اور مزاج میں آزادی بھی شاعروں کی سی رکھتے تھے۔ قصیدہ اعجازیہ کا لکھنے والا؟ سعید طرابلسی کی کہانی اس شہر (حیدرآباد دکن) میں مرزائی زیادہ ہیں۔ انہوں نے مرزاقادیانی سے رابطہ کرادیا اور خط وکتابت ہونے لگی۔ انہوں نے قصیدے کی فرمائش کی عرب صاحب نے پانچ سو روپیہ لے کر قصیدہ لکھ دیا اس کا ثبوت ملاحظہ ہو۔ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم کو عربی ادب سے مذاق تھا۔ اس لئے نواب صاحب نے انہیں بلوایا تھا۔ اتفاق سے جس مکان میں وہ بھوپال میں مقیم تھے اس میں ایک اور مولوی صاحب بھی ٹھہرے تھے جو اطراف امروہہ کے رہنے والے تھے۔ وہ مولوی صاحب کانپور میں میرے پاس آئے اور ان عرب کے قیام کا تذکرہ کیا۔ اس میں یہ کہا کہ ایک روز وہ مرزاقادیانی کو خط لکھ رہے تھے۔ میں قریب جاکر کھڑا ہوگیا تو دیکھا کہ خط کے عنوان پر انہوں نے مرزاقادیانی کو مسیح زمان لکھا تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ انہیں مسیح مانتے ہیں۔ انہوںنے سختی