احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
محیط ہیں اور انبیاء ورسل سب کے سب اسی احاطہ ودائرہ میں محاط ومحصور ہیں۔کیونکہ آپ خلقت روحی کی بناء پر اوّل الانبیاء ہیں اور خلقت جسمانی وبعثت نبوی کی بنیاد پر آخر الانبیاء ہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ’’انا اوّل الانبیاء خلقاً واٰخرہم بعثاً‘‘ {میں خلقت میں اوّل الانبیاء اور بعثت میں آخر الانبیاء ہوں۔} اور اگر اس لفظ کو بمعنی مہر مانا جائے تو پھر خاتم النّبیین کا یہ مطلب ہے کہ آپ نے تمام انبیاء کے آخر میں آکر مہر کا فریضہ انجام دیا۔ کیونکہ جس طرح مضمون کے ختم ہو جانے کے بعد مضمون کے آخر میں تصدیقی مہر لگائی جاتی ہے۔ تاکہ نوشتہ مضمون میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کی جاسکے۔ اسی طرح پر آپ نے بھی تمام انبیاء ورسل کے آخر میں مبعوث ہوکر سلسلۂ نبوت ورسالت کے اندرکسی دیگر نبی ورسول کے اضافہ یا کم کرنے کو روک دیا اور اسی سلسلہ کی مہر ثابت ہوکر اسے سربمہر کر دیا تاکہ مسیلمہ کذاب اور غلام پنجاب اور بہاء اﷲ ایرانی جیسے جعلی اور شیطان کاشتہ متنبیان باہر رہیں۔ نیز مہر کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے انگوٹھی کے حلقہ کی نقرئی یا طلائی تار کے دونوں سروں کو ملا کر اس پر نگینہ فٹ کر دیاجاتا ہے۔ اسی طرح آپ نے بھی سلسلۂ نبوت ورسالت کی ابتداء وانتہاء کو ملا کر اس کے اوپر محمد رسول اﷲa کی مہر لگادی تاکہ اس سلسلہ میں نہ کوئی جعلی نبی داخل ہو سکے اور نہ کسی راست باز اور سچے نبی کو باہر نکالا جاسکے۔ ۸… قرآن عزیز نے آیت زیربحث کے آخری فقرہ ’’وکان اﷲ بکل شییٔ علیماً‘‘ کے اندر ایک وعیدی اور انذاری پیش گوئی کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ امت محمدیہ کے اندر بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو حضرت محمد رسول اﷲa کو کامل خاتم النّبیین نہیں مانیں گے اور آپ کی ختم نبوت کے اندر طرح طرح کی تاویلیں اور غیر موزوں تعبیریں وتغیریں پیدا کریں گے اور خداتعالیٰ ان کی بکواسوں کو جاننے والا ہے اور ان کاذب وبطال متنبیان کا علم رکھتا ہے۔ ان کو ان کے خلاف اسلام کردار پر ضرور بالضرور سزا دے گا۔ جاننا چاہئے کہ لفظ ’’خاتم النّبیین‘‘ کے بعد فقرہ بالا کو لانے کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک صالح اور شریف باپ کا عاق وبے فرمان بیٹا جب اپنے باپ کے سامنے سے گذرتا ہے تو باپ اسے دیکھ کر کہتا ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں اور یہی فقرہ وہ اونچی آواز سے کہتا ہے تاکہ بیٹا اسے سن لے اور اس طور بیان سے باپ کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ میں تیری عیاشی وبدمعاشی کو بخوبی جانتا ہوں اور مناسب موقعہ ملنے پر میں تمہیں ضرور اور لامحالہ سزادوں گا۔ بنابرآں فقرہ بالا کے اندر قرآن عزیز کا بھی یہی انداز بیان ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی جانب سے اظہار کرتا ہے کہ خداتعالیٰ