احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اقوا اور اصراف گو بعض شعراء کے کلاموں میں آئے ہیں۔ مگر ناقدین نے ان کو معیوب گناہے۔ چنانچہ عبارات کتب عروض اوپر گزر چکی ہیں۔ علاوہ اس کے مندرجہ ذیل اشعار میں سقم معنوی بھی ہے: (ص۴۸، شعر۹) ’’نسل ایہا القاری اخاک ابا الوفا… لما یخدع الحمقیٰ وقد جاء منذر‘‘ عام مخاطب کو جس میں اپنی جماعت کے افراد ناقصہ اور کاملہ بھی داخل ہیں۔ ابوالوفاء کا بھائی یعنی مثیل بنایا ہے اور ابوالوفا کو خدع سے موصوف کیا ہے۔ حالانکہ ایہا القاری بحیثیت عموم کے خدع سے موصوف نہیں ہوسکتا۔ (ص۵۰، شعر۸) ’’وان قضاء اﷲ ما یخطی الفتی… لہ خانیات لا یراہا مفکر‘‘ لا یراہا کا فاعل مفکر کو بنایا ہے۔ حالانکہ مفکر کا کام رؤیت نہیں بلکہ فکر ہے اور اگر افعال قلوب سے کہیں تو دوسرا مفعول ندارد ہے جو ضروری ہے۔ (ص۵۶، شعر۵) ’’ولو ان قومی انسوی لطالب… دعوۃ لیعطوا عین عقل وبصروا‘‘ وبصروا کا عطف دعوت پر مراد نہیں اور یعطوا پر صحیح نہیں۔ (ص۷۴، شعر۴) ’’ایا عابد الحسنین ایاک والظنی… ومالک تختار السعیر وتشعر‘‘ وتشعرو پر واو غلط ہے۔ کیونکہ مضارع حال ہو تو صرف ضمیر سے آتا ہے۔ کافیہ میں ہے۔ ’’والمضارع المثبت بالضمیر وحدہ‘‘ اور تختار پر عطف مراد نہیں۔ کما لا یخفیٰ! (ص۷۵، شعر۱۱) ’’فقلت الک الویلات یا ارض جولرا… لعنت بملعون فانت تدمر‘‘ انت ضمیر مؤنث مخاطب ہے اور تدمر صیغہ مذکر مخاطب ہے اور اگر تدمرین ہو تو نہ وزن درست رہے گا اور نہ قافیہ بے عیب۔ حقیقت میں یہ پیر صاحب گولڑوی (جن کی اس شعر میں ہجو کی گئی ہے) کی گویا کرامت ہے۔ (ص۷۷، شعر۶) ’’فیاتی من اﷲ العلیم معلم… ویہدی الیٰ اسرارہا ویفسر‘‘ اسرارہا میں ضمیر مؤنث اﷲ جل شانہ کی طرف پھیر دی ہے۔ (کیوں نہ ہو بازی، بازی باریش بابا بازی) (ص۸۲، شعر۴) ’’وان کان ہذا الشرک فی الدین جائزا… فبا لغو رسل اﷲ فی الناس بعثر‘‘ یہ شعر بعینہ اور ہو بہو ص۸۰ کا گیارھواں شعر ہے۔