احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
(ص۸۷، شعر۸) ’’نری برکات نزلوہا من السماء… لنا کاللوا قح والکلام ینصنر‘‘ نزلوہا میں ضمیر فاعل کا مرجع پہلے مذکور نہیں۔ بتلائیے! جس چھوٹے سے قصیدے میں سرسری نظر سے اتنی غلطیاں لفظی اور معنوی ہوں وہ بھی اس قابل ہوسکتا ہے کہ اعجازیہ کا معزز لقب پاسکے اور اس کو بے مثل کہا جائے۔ ہاں! اگر بے مثل کے یہ معنے ہیں کہ اس جیسا غلط کلام اور قصیدہ دنیا بھر میں کوئی نہیں تو ہمیں بھی مسلم ہے۔ مرزاقادیانی کے قصیدہ کا حال تو معلوم ہو چکا۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک قصیدہ سنئے جو قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم پروفیسر اورینٹل کالج لاہور نے مرزاقادیانی کے جواب میں لکھا تھا۔ واضح ہو کہ قاضی صاحب کو مرزاقادیانی نے اپنے قصیدے کے جواب کے لئے طلب فرمایا تھا۔ (ملاحظہ ہو اعجاز احمدی ص۸۶، خزائن ج۱۹ ص۱۹۹) (قصیدہ رائیہ یہاں سے حذف کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر وہ مکمل شامل ہے۔ مرتب!) مرزاقادیانی کی قصیدہ خوانی کا جواب تو ہو لیا۔ ہمیں افسوس ہے کہ حکیم صاحب نے بھی اس پیش گوئی کے متعلق بالکل معمولی معمولی باتوں میں وقت ضائع کیا ہے۔ اصل بات کی طرف توجہ نہیں کی۔ گو ان معمولی باتوں میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قصیدہ اعجازیہ اس پیش گوئی کا مصداق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ پیش گوئی بہت زیادہ وزن رکھتی ہے اور قصیدہ مذکورہ درصورت واقعی اعلیٰ ہونے کے بھی اس پیش گوئی کا مصداق نہیں۔ کیونکہ اس قسم کی اعجاز نمائی مرزاقادیانی کو اس پیش گوئی کے پہلے بھی حاصل تھی۔ اس سوال کا جواب حکیم صاحب اور ان کی کمپنی نے نہیں دیا۔ دیتے بھی کیا؟ جو کام مشکل ہو وہ کون کرے؟ حکیم صاحب تو اس مصیبت میں بزبان حال گویا یوں گویا ہیں ؎ بلبل کو دیانالہ تو پروانہ کو جلنا غم ہم کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا ناظرین! اس آسمانی نشان کے متعلق واقعات صحیحہ کو سامنے رکھیں اور مرزاقادیانی کے ’’الفاظ طیبہ‘‘ کو دیکھیں جو مکرر درج ذیل ہیں: ’’میں نے اپنے لئے یہ قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میری یہ دعا قبول نہ ہو تو میں ایسا ہی مردود اور ملعون اور کافر اور بے دین اور خائن ہوں۔جیسا مجھے سمجھا گیا۔‘‘ (اشتہار مورخہ ۵؍نومبر ۱۸۹۹ء ص۱۳، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۷۸) پس ہمارا بھی اسی پر صاد ہے کہ درصورت دعا قبول نہ ہونے کے آپ کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ فاکتبنا مع الشاہدین! (منقول از کمالات مرزا مشمولہ احتساب ج۸ ص۱۰۶تا۱۲۰)