احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
اس نے فرشتوں کی خوراک کھائی اور زندہ رہا ۔ اس کی خوراک ذکر خدا تھی اور وہ اس سے پائیدار ہوگیا۔ لفظ ’’ویکلم الناس فی المہد وکھلاً‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ وہ پنگوڑے اور بڑھاپے میں اعجازاً کلام کرے گا۔ چنانچہ مہد سے مراد اس کی پہلی زندگی ہے جو قبل از رفع گذری۔ اور کہل سے مراد اس کی پچھلی زندگی ہے جو بعد النزول ہوگی اور یہاں پر ذکر الجزء وارادۃ الکل کی بنیاد پر لفظ مہد سے جوانی کی زندگی اور لفظ کہل بمعنی شروع بڑھاپے سے جوانی کے بعد کی زندگی مراد ہے۔ مولوی محمد علی لاہوری نے لفظ کہل کو ۳۰تا۵۰سال تک کی زندگی کے لئے کہا ہے اور دونوں زمانے باہم متغائر ہوں گے۔ جیسا کہ لفظ مہد وکہل ہیں۔ صرف معرف باللّام اور غیر معرف باللّام کا فرق ہے۔ جاننا چاہئے کہ قران حکیم نے ’’فی المہد والکہل‘‘ کی بجائے ’’فی المہد وکہلاً‘‘ کہہ کر یہ بتایا ہے اور واضح کیا ہے کہ مسیح کا عہد طفولیت اور عہد کہولیت باہم ملا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ دونوں عہدوں کے درمیان ایک طویل مدت حائل ہوگی۔ چنانچہ مسیح کا رفع الیٰ السماء ۳۱سال کی عمر میں ہوا جس سے کہولت و ادھیڑ پن کا آغاز ہوتاہے۔ نتیجہ یہ رہا کہ مسیح علیہ السلام اپنے نیم بڑھاپے کے شروع میں مرفوع الیٰ اﷲ ہوا ہے اور آسمانی قیام کے اندر اس کی زندگی پر کوئی تغیر وتبدل نہیں آئے گا۔ بلکہ وہ جس شکل وصورت میں مرفوع ہوا ہے اسی شکل وصورت میں نزول کرے گا اور اس کا سن کہولت قبل الرفع اور بعد النزول یکساں ہوگا۔ لہٰذا کلام فی الکہولت سے مراد قرآن، مسیح کا وہ کلام کہولت ہے جو بعد النزول ہوگا اور عہد مہد سے کلام کہولت مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کا کلام کہولت تو ہر شخص کرتا ہے۔ قلت: بود اندر مہد ایں عیسیٰ کلیم کرد ہمچوں بالغاں گفت فہیم یہ عیسیٰ بچپن میں پنگوڑے کے اندر بولنے والا بن گیا اور بالغوں کی طرح سمجھدار بات کہی۔ گفت او آیندگاں را السلام باز با پرسند گاں شدہم کلام اس نے آنے والوں سے السلام علیکم کہا اور پھر پوچھنے والوں سے باتیں کرنے لگا۔ بر زمیں شد کہل ہمچوں کہل ماند زندگی خویش ہمچوں کہل راند وہ زمین پر نیم بوڑھا ہوگیا اور نیم بوڑھا رہا اور ایک نیم بوڑھے کی طرح اپنی زندگی گذاری۔ باز اورا آسماں آواز داد رفت ہمچوں کہل بالا ہمچوں باد پھر اس کو آسمان نے آواز دی اور وہ ایک نیم بوڑھے کی طرح ہوا کی مانند اوپر چلا گیا۔