احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ماند اندر آسماں چوں کہل او زانکہ شد ایں زیستن را اہل او وہ ایک نیم بوڑھے کی شکل میں آسمان کے اندر رہا۔کیونکہ وہ ایسے جینے کا اہل بن چکا تھا۔ چون قیامت خواہد آمد از خدا آید او چوں کہل برما وشما جب خداتعالیٰ کی طرف سے قیامت آجائے گی تو وہ نیم بوڑھے کی طرح ہم پر اور تم پر آجائے گا۔ باشد او چوں کہل گویا وفہیم تاشود برما از و لطف عمیم وہ نیم بوڑھے کی طرح بولنے والا اور سمجھدار ہوگا، تاکہ وہ ہم پر لطف عمیم کرتا رہے۔ لفظ ’’من الصالحین‘‘ سے مراد قرآن یہ ہے کہ وہ صالح انسانوں میں سے ایک ہوگا اور یہاں پر اس کو ’’نبیاً من الصالحین‘‘ نہیں کہاگیا۔ کیونکہ وہ اپنے بعد النزول دور کے اندر نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ صرف صالح انسان ہوگا۔ اس کی نبوت محمدی دور کے اندر آکر اس طرح پر مستور ومحجوب ہو جائے گی جیسا کہ طلوع آفتاب سے چاند اور ستاروں کی روشنی درپردہ اور زیر حجاب آجاتی ہے۔ ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بقول قرآن مرا نہیں۔ بلکہ زندہ ہے اور ایک ایسا دور اس پر آنے والا ہے جس میں وہ صرف صالح انسان ہوگا اور نبی ورسول نہیں ہوگا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ’’نبیاً من الصالحین‘‘ کہا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں کہا اور اسے صرف ’’من الصالحین‘‘ کہا تاکہ یہ فرق وامتیاز نمایاں رہے کہ دور محمدی پانے والا عیسیٰ نبی نہ رہا اور صالح انسان بن گیا اور دور محمدی نہ پانے والا یحییٰ نبی بدستور نبی رہا۔ قلت: عیسیٰ پیش مصطفیٰ ناید نبی ہر کہ گوید عکس ایں باشد غبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مصطفیa کے آگے نبی بن کر نہیں آئے گا اور جو شخص اس کے برعکس کہتا ہے وہ غبی ہے۔ اختراں نایند روشن پیش مہر نیست زندہ پیش موسیٰ جملہ سحر ستارے سورج کے آگے روشن نہیں رہتے اور سب جادو حضرت موسیٰ کے آگے زندہ نہ رہے۔ چوب موسیٰ مارہائے سحر کشت احمد ماہر نبوت را بشست موسیٰ کی لاٹھی نے جادو کے سب سانپ ماردئیے اور ہمارے احمدa نے ہر نبوت کو دھو ڈالا۔ دین احمد دین عیسیٰ رانجورد تاشود آں دین دین شیخ و خورد احمدa کا دین دین عیسیٰ کو کھاگیا۔ تاکہ یہی دین ہر چھوٹے بڑے کا دین بن جائے۔