احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
دوسری حد وغایت ہے اور مطلب یہ ہے کہ مجاہدین اسلام اور محتاجین عوام دجالی فتنہ کو ختم کرنے کے بعد بے شمار اموال غنیمت حاصل کر کے خداتعالیٰ کے آگے بطور شکریہ کے سربسجود ہو جائیں گے اور شکریہ کا صرف ایک ہی سجدہ کریں گے۔ ان کو اسی ایک سجدہ میں ایسی لذت وفرحت میسر آئے گی کہ دنیا ومافیہا کی تمام لذتوں سے بہتر وبالا ہوگی۔ ۱۰… حدیث بالا کے آخر میں حضرت ابوہریرہؓ نے بیان حدیث کی توثیق وتصدیق میں آیت پڑھی اور سامعین کو اس کے پڑھنے کا مشورہ دیا: ’’وان من اہل الکتٰب الا لیؤمنّن بہ قبل موتہ‘‘ اہل کتاب میں سے ہر ایک شخص مسیح کے قبل الموت رفع پر ضرور ایمان لائے گا۔ جاننا چاہئے کہ آیت ہذا کو حدیث بالا کے ساتھ ملانے سے راویٔ حدیث کا یہ مطلب ہے کہ آیت ہذا میں جس مسیح ابن مریم کے رفع الیٰ اﷲ کا ذکر ہے وہی مسیح ابن مریم قرب قیامت میں نازل از آسمان ہوکر دجال کو قتل کرے گا۔ دراصل وجہ یہ ہے کہ آیت ہذا کے اندر لفظ ’’بہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ کی طرف راجع نہیں ہے۔ جیسا کہ مفسرین قرآن اور مرزا واہل مرزا کا خیال ہے۔ بلکہ یہ ضمیر مسیح کے رفع الیٰ اﷲ کی طرف عائد ہے جس کا ذکر آیت ہذا سے متصلاً قتل کی آیت: ’’وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ {یہود نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ خداتعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔} میں ہے۔ کیونکہ قرآن عزیز کے پیش نظر ایمان بالمسیح کا اثبات نہیں ہے۔ بلکہ مقصود قرآن صرف مسیح کے رفع الیٰ اﷲ کو ثابت کرنا ہے۔ جس کا ذکر آیت ہذا سے قبل کی متعدد آیات میں آرہا ہے۔ چنانچہ جس سلسلہ میں یہ آیت آئی ہے اسی سلسلہ کا اثبات مقصود قرآن ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو پھر قرآن مجید پر خلط مبحث کا الزام عائد ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے رفع الیٰ اﷲ کے دعویٰ پر ایمان بالمسیح کو بطور دلیل کے پیش کر دیا۔جس سے دعویٰ ودلیل میں تناسب نہ رہا۔ بہرحال میرے نزدیک یہ بات حق الیقین کا درجہ رکھتی ہے کہ لفظ ’’بہ‘‘ کی ضمیر فعل ’’رفعہ اﷲ‘‘ کے اندر مستور مصدر ’’رفع الیٰ اﷲطرف راجع ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ عقل وسائنس کا ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ہر ایک کتابی حضرت مسیح کے قبل الموت رفع کو ضرور مان لے گا۔ جب کہ وہ عمر بھر اسی عقیدہ سے بشدت منحرف ومنکر رہا۔ بنابرآں آیت بالا اور حدیث بالا میں یہ مطابقت ہے کہ آیت میں مسیح کا قبل الموت رفع مذکور ہے اور حدیث زیر بحث میں اسی مسیح کا نزول قبل