احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
پاکستان کے تارکین وطن کو ہندوستان نے اور ہندوستان کے تارکین وطن کو پاکستان نے مردہ اور ہالک قرار دے کر ان کی متروکہ جائیداد نیلام کر دی ہیں اور وہ مستحقین کو الاٹ ہوگئی ہیں۔ حالانکہ دونوں قسم کے تارکین وطن کی اکثریت حقیقتاً اب تک زندہ ہے اور شاغل بکار ہے۔ لہٰذا چونکہ عیسیٰ علیہ السلام مدت دراز کے لئے تارک وطن ہوکر بطور مہاجر کے مقیم آسمان ہیں۔ اس لئے ان کو مجازاً لفظ ’’خلت‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن وہ اب تک زندہ ہیں۔ الجواب ثالثاً یہ ہے کہ چونکہ قرآن مجید کے اندر صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نفی قتل کے بعد رفع الیٰ اﷲ کا لفظ صراحۃً مذکور تھا۔ جیسے: ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفع اﷲ الیہ‘‘ اور مفہوم یہ ہے کہ وہ قتل سے بچ کر مرفوع الیٰ اﷲ ہو چکے ہیں۔ اس لئے صحابہ کرامؓ نے آنحضرتa کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے آگے حیات عیسیٰ کا عذر پیش نہ کیا۔ جب کہ حضرت عمرؓ نے حیات عیسیٰ کی بنیاد پر وفات مصطفی کا انکار کر دیا تھا۔ ہاں! یہاں ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت ہذا میں علم البلاغۃ کی ایک قسم قصر الموصوف علی الصفہ مستعمل وموجود ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ موصوف اپنی مذکورہ صفت کا پابند ہے اور صفت آزاد ہوکر دیگر مواصیف میں بھی پائی جاسکتی ہے۔ اب آیت ہذا کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمدa کے پابند رسالت اور رسول خدا ہونے کے بعد آپa سے پہلے اور پیچھے بھی رسولان خدا ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا مسیلمہ کذاب اور غلام پنجاب بھی سچے رسولان خدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آپa سے قبل رسولان خدا فقرہ ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ کے پیش نظر ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں اور آپa کے بعد نہ رسولان خدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہوں گے۔ کیونکہ اسی امکان کے لئے آیت ہذا میں کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہی آیت ختم رسالت کے بارے میں مقام صراحت کی حامل ہے۔ الجواب رابعاً یہ ہے کہ آیت زیربحث سے حیات مسیح کا صریح ثبوت مہیا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر آیت ہذا کو آیت: ’’ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ {کہ بلاشبہ مسیح ابن مریم رسول خدا ہے اور اس سے پہلے بھی رسولان خدا گذر چکے ہیں۔ (وفات پاچکے ہیں)} سے ملا کر بالترتیب قرآن محمدی آیت کو پہلے اور مسیحی آیت بعد میں رکھ کر پڑھ جائے تو دونوں آیات کا مفہوم یہ ہوگا کہ محمدa سے پہلے تمام رسول بمع عیسیٰ کے فوت ہوچکے ہیں۔ لیکن