احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
ج… ’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علیٰ کل شیٔ شہید‘‘ {پھر جب تو نے مجھے اپنے قبضہ میں لیا تو صرف تو ہی ان کا نگران رہا۔ کیونکہ تو ہر چیز پر حاضر وناظر ہے۔} مطلب یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے قبضہ میں لے کر مقیم آسمان بنا لیا۔ تو حضرت عیسیٰ کی ذمہ داری ختم ہوگئی اور بجائش خداتعالیٰ کی ذمہ داری نے چارج سنبھال لیا اور عیسیٰ علیہ السلام عند اﷲ اسی زمانہ کے جوابدہ نہ رہے۔ اب یہاں صرف لفظ ’’توفی‘‘ کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہی لفظ عند الفریقین محل نزاع ہے اور اسی لفظ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات وممات کا دارومدار ہے۔ جاننا چاہئے کہ کلام عرب میں لفظ ’’توفی‘‘ کے دو معانی مستعمل ہیں۔ ایک معنی ’’اخذ الشیٔ وافیاً‘‘ کسی چیز کا پورا پورا وصول کرنا جیسے ’’توفیت دارہمی من فلان‘‘ میں نے فلاں آدمی سے اپنے پیسے پورے وصول کر لئے اور جیسا کہ آیت ذیل میں ہے: ’’واتقوا یوماً ترجعون فیہ الیٰ اﷲ ثم توفیٰ کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون‘‘ {اور تم لوگ اس دن سے ڈرو جس میں تم خداتعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اپنی کمائی پوری دی جائے گی اور اس میں کمی نہیں ہوگی۔} اور دوسرا معنی ’’اماتۃ الشیٔ الحی‘‘ کسی زندہ چیز کو مارنا اور موت دینا ہے۔ جیسے ’’توفاہ اﷲ علیٰ فراشہ‘‘ خداتعالیٰ نے اس کو اس کے بستر پر موت دے دی۔ بحالت بالا آیت زیر نزاع ’’فلما توفیتنی‘‘ میں لفظ ’’توفی‘‘ کا معنی اوّل مراد ہے۔ یعنی جب تو نے مجھ کو میری امت سے پورا پورا بمع جسم وروح کے وصول کر لیا تو میری بجائے تو ہی ان کا شاہد ونگران بن گیا۔ اگر کہا جاوے کہ لفظ توفی کا معنی پورا پورا وصول کرنا اس وقت لیا جاتا ہے جب کہ اس کا صلہ حرف من لفظاً موجود ہو۔ مگر یہاں پر جب یہ صلہ موجود نہیں ہے تو پھر یہاں پر پورا پورا لینے کا معنی نہیں لیا جاسکتا۔ جواب یہ ہے کہ یہاں پر حرف من صلہ توفی محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے۔ ’’فلما توفیتنی منہم‘‘ جب تو نے مجھے ان سے پورا وصول کر لیا تو تو ہی ان کا نگران رہا۔ میں نے یہاں پر حرف من کا محذوف ہونا اس لئے کہا ہے کہ میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ آیت ’’یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا‘‘ میں فقرہ ’’من الذین کفروا‘‘ علیٰ سبیل التنازع ما قبل کے تینوں اسمائے فاعل سے متعلق ہے اور