احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
صحت وسقامت کا اندازہ ہو سکے۔ میں نے ان کو درج ذیل آیت قرآن بمعہ مختصر تشریح کے بھجوادی اور ان سے ان کے فیصلہ کی ترسیل کا مطالبہ کیا۔ قال تعالیٰ: ’’یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ ومطہرک من الذین کفروا (آل عمران:۵۵)‘‘ {اے عیسیٰ! میں تجھے پورا وصول کرنے والا اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔} چونکہ مرزاقادیانی کا چیلنج یہ تھا کہ: ’’اگر کوئی شخص قرآن کریم یا حدیث رسول اسے یا اشعار وقصائد نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ ’’توفی‘‘ کا لفظ خداتعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیاگیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پاگیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے تو میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ میں ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کافروخت کر کے مبلغ ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ کے لئے اس کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰۳) اس لئے میں نے مذکورہ بالا پیش کردہ آیت کی یہ تشریح وتوضیح پیش کی کہ فقرہ جار ومجرور ’’من الذین کفروا‘‘ علیٰ سبیل التنازع جو علمائے نحوکا ایک مشہور نحوی مسئلہ ہے۔ اپنے ماقبل کے تینوں الفاظ ’’متوفیک‘‘ اور ’’رافعک الیّٰ‘‘ اور ’’ومطہرک‘‘ کے ساتھ متعلق ہے اور آیت ہذا کی اصل عبارت بطور ذیل ہے: ’’یٰعیسیٰ انی متوفیک من الذین کفروا ورافعک الیّ من الذین کفروا ومطہرک من الذین کفروا‘‘ اور اس پر میرا استدلال یہ ہے کہ بصورت بالا لفظ ’’توفی‘‘ کا فاعل خداتعالیٰ اور مفعول ذی روح انسان (حضرت عیسیٰ) ہے اور معنی قبض جسم اور پورا پورا وصول کرنا ہے۔ مارنا اور وفات دینا نہیں ہے۔ چنانچہ اب معنی آیت بصورت بالا یوں ہے کہ: ’’اے عیسیٰ! میں تجھ کو کفار سے پورا پورا وصول کرنے والا ہوں اور تجھ کو کفار میں سے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار سے تیری تطہیر کرنے والا ہوں۔‘‘ ان حالات میں جب لفظ ’’توفی‘‘ کا صلہ حرف من واقع ہو جیسا کہ میری توجیہ کے مطابق آیت بالا سے موجود ہے تو اس لفظ کا معنی صرف قبض جسم اور پورا پورا وصول کرنا ہے۔ جیسا کہ لغت کی مشہور کتاب ’’المنجد‘‘ میں مذکور ہے۔