احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
جواب اوّلاً یہ ہے کہ یہ الہام خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایک ایسے شخص کو بچھڑا کہا گیا ہے جو بچھڑا پرستی اور الوہیت گوسالہ کا منکر تھا اور اس کے خلاف قلمی وزبانی تردید کیا کرتا تھا۔ پھر بھی اگر بزعم مرزا یہی الہام خداتعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر اس سے خداتعالیٰ پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوست ودشمن کے امتیاز سے بالکل غافل اور ساہی ہے۔ کیونکہ اس نے بچھڑا پرستی کے مخالف کو بچھڑا کہہ کر اس کی بے توقیری اور اپنی بے تدبیری کا ثبوت بہم پہنچایا ہے جو شان خداوندی کو زیب نہیں دیتا۔ ثانیاً یہ کہ الہام ہذا کے فقرہ اوّل سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ڈکارنے والے بچھڑے کی طرح زندہ رہے گا اور بچھڑے کے ڈکارنے کی مانند بے مطلب اور لایعنی بکواسیں کرتا رہے گا۔ ثالثاً یہ کہ الہام ہذا کے دوسرے حصہ سے صرف اسی قدر ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ رہ کر بحالت زندگی ایک قسم کا رنج اور دکھ پائے گا۔ اس کے مرنے یا قتل ہونے کے لئے یہاں پر کوئی لفظ موجود نہیں ہے جو مرزائی مطلب کی تائید وتوثیق کر سکے۔ ہاں! اگر یہی الہام بطور ذیل ہوتا اور اس میں لفظ ’’تبار‘‘ کا اضافہ کر دیا جاتا تو پھر اس سے مرزائی مطلب کی تصدیق ہو جاتی اور الفاظاً دونوں فقرے برابر رہتے۔ ’’عجل جسداً لہ خوار لہ نصب وعذاب وتبار‘‘ جسم بچھڑا ڈکارتے ہوئے تھکن دکھ اور ہلاکت پائے گا۔ مگر چونکہ یہ الہام رحمانی نہیں تھا بلکہ شیطانی تھا۔ اس لئے اس میں مناسب لفظ کی کمی ہوگئی اور الہام مذکور مرزائی مقصد کا مؤید ومصدق نہ بن سکا۔ رابعاً یہ کہ الہام ہذا سے یہ نہیں پایا جاتا کہ وہ چھ سال کے عرصہ میں مرے گا یا قتل ہوگا۔ چھ سال کی تحدید مرزاقادیانی کی خود ساختہ ہے اور بعد کا اضافہ ہے۔ مزید برآں مرزاقادیانی نے اپنے درج ذیل عربی شعر سے بھی لیکھرام کی موت بالقتل پر استدلال کیا ہے اور کہا ہے: