احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
مرزاقادیانی نے اپنی پیش گوئی کی تصحیح میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ آتھم نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں نعوذ باﷲ آنحضرتa کو بلفظ دجال ذکر کیا ہے اور مرزائی پیش گوئی کے اندر رجوع الیٰ الحق سے مراد آتھم کا لفظ دجال کو واپس لینا ہی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ عذر پیش کرنا قطعاً صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ دوران مباحثہ یہ لفظ زیر بحث نہیں آیا۔ بلکہ صرف توحید وتثلیث ہی موضوع مباحثہ رہے۔ ان حالات میں رجوع الیٰ الحق کو لفظ دجال کے واپس لینے پر چسپاں کرنا درست اور حق بجانب نہ رہا۔ بلکہ پیش گوئی کے لئے رجوع الیٰ الحق سے مراد قبول توحید رہا جس کو آتھم نے مرتے دم تک قبول نہیں کیا اور وہ بدستور قائل تثلیث رہا اور مرزائی پیش گوئی کی مکمل طور پر تغلیط وتبطیل کر گیا۔ بنابرآں پیش گوئی کے لفظ رجوع الیٰ الحق کو لفظ دجال سے چسپاں ومرتبط بتانا بلاوجہ کی سینہ زوری اور بے مطلب شوراشوری ہے۔ باقی رہا آتھم کے قسم کھانے کا معاملہ جس کو اس نے رد کر دیا اور قسم نہ کھائی قابل تصفیہ ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ آتھم مرزاقادیانی کی طرح حریص زر اور عاشق دولت نہیں تھا کہ وہ مرزائی چکر میں آجاتا اور قسم کھا کر مرزاقادیانی سے چار ہزار روپے کی خطیر رقم بٹور لیتا۔ مگر وہ اس کی مانند زرپرست اور لالچی نہیں تھا۔ بلکہ وہ صاحب جائیداد اور باضمیر شخص تھا۔ جس نے لالچ پر قسم کھانے سے گریز کیا۔ پیش گوئی دوم متعلقہ لیکھ رام کے متعلق عرض یہ ہے کہ وہ ایک آریہ سماجی شخص تھا اور گوسالہ پرستی کا منکر اور توحید کا قائل تھا۔ مرزاقادیانی سے اس کا اختلاف صرف رسالت محمدیہ کے بارے میں تھا۔ کیونکہ وہ آنحضرتa کی بجائے رشی دیانند کی رسالت کا معتقد تھا اور اسی کا پیروکار اور مقلد تھا اور محمدی تعلیم وتقلید سے منحرف تھا۔ اس پر مرزاقادیانی نے اس کو اپنے نشانات دکھلانے کے لئے قادیان آنے کی دعوت دی اور وہ بے خوف وخطر قادیان میں آگیا اور مرزائی نشانات دکھلانے کے لئے ایک مدت تک انتظار کی۔ مگر مرزاقادیانی اس کو اپنا ایک نشان بھی نہ دکھلا سکا اور بے حد رسوا اور پریشان ہوا اور حیلے بہانے تراشنے شروع کر دئیے۔ چنانچہ اپنی پریشان کن رسوائی اور ہوش ربا خجالت کو مٹانے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنا درج ذیل الہام شائع کر دیا۔ ’’عجل جسداً لہ خوار لہ نصب وعذاب‘‘ جسیم بچھڑا بن کر ڈکارتا ہے۔ اس کے واسطے تھکن اور دکھ ہے۔ (تذکرہ ص۲۸۱، طبع سوم)