احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
آیت ہذا سے بالصراحت واضح ہے کہ مباہلہ اتمام حجت اور اقامت براہین کے بعد ہونا چاہئے اور پھر فریقین مباہلہ کی تعداد برابر ہو اور مباہلہ میں فریقین مباہلہ کے بیوی بچے بھی شامل مباہلہ ہوں۔ کیونکہ ان کے شامل کرنے سے جھوٹا فریق بالضرور مرعوب ومغلوب ہو جاتا ہے اور سچا فریق فاتح وفائق رہتا ہے اور مباہلہ صرف مباحثہ میں حصہ لینے والے اشخاص ہی کر سکتے ہیں اور غیرمتعلق اشخاص کو شامل مباہلہ کرنا بھی درست نہیں ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کی انذاری وتہدیدی کارروائی کرنا بھی آداب مباہلہ میں شامل نہیں ہے۔ بنابرآں اگر مرزاقادیانی کو شوق مباہلہ دامن گیر تھا تو وہ صرف فریق مباحثہ عبداﷲ آتھم اور اس کے معاونین سے کر سکتا تھا۔ غیرمتعلق علماء وشیوخ کو دعوت مباہلہ دینا خلاف قرآن وسنت ہے اور پھر مباہلہ میں فریق مباہلہ دینا بھی صحیح نہیں ہے اور پھر مباہلہ سے اپنے بیوی بچوں کو الگ رکھنا بھی آداب مباہلہ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ بہرحال مرزاقادیانی نے اپنے اپنائے ہوئے کردار مباہلہ سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسرار قرآن اور معارف فرقان کا آشنا اور شناسا نہیں ہے۔ ورنہ وہ ایسا کرنے سے ضرور بالضرور گریز کرتا۔ اب ہم اصل پیش گوئی کی طرف آتے ہیں اور اس کا صحیح تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ پیش گوئی کی عبارت بطور ذیل ہے: ’’اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیارکر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ (جنگ مقدس ص۱۸۹، خزائن ج۶ ص۲۹۲) چنانچہ اس عبارت سے یہ پایا جاتا ہے کہ مرزا اور آتھم کے مابین موضوع بحث صرف توحید وتثلیث تھا اور مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ توحید حق ہے اور تثلیث باطل ہے اور آتھم توحید کو باطل اور تثلیث کو حق ثابت کرنے والا تھا۔ بنابرآں مرزائی پیش گوئی کا یہ مطلب تھا کہ اگر آتھم نے تثلیث کو چھوڑ کر توحید کی طرف رجوع نہ کیا۔ جب کہ وہ ایک وقت میں توحید کا قائل تھا تو وہ ذلت کے گڑھے میں گرایا جائے گا۔ یعنی وہ پندرہ ماہ کے اندر ضرور بالضرور ذلیل ہوگا۔ مگر آتھم نے نہ توحید خداوندی کی طرف رجوع کیا اور نہ اس کو کسی قسم کی ذلت کاسامنا کرنا پڑا۔ بلکہ مرزائی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ کیونکہ وہ عمر بھر منکر توحید رہ کر قائل تثلیث رہا اور بکلی صحت وسلامت سے زندہ رہا۔