احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
العلامتہ الفاضل نے مرزاقادیانی کی اس کتاب کا رد بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ بلکہ آپ نے نظم کا جواب نظم میں، نثر کا نثر میں، حتیٰ کہ جملے جملے اور لفظ لفظ کے دندان شکن جوابات دے کر پوری امت مرزائیہ کو بے بس اور عاجز کر دیا ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ: ’’اعتراف عظمت کے لئے بھی باعظمت انسان ہونا ضروری ہے۔‘‘ مگر افسوس کہ اس مخصوص گروہ میں جنہیں یہ پاک وصاف آئینہ دکھایا گیا ہے قلوب میں انابت کی کوئی رمق بھی باقی نہیں ہے۔ ورنہ ان کو اس کتاب کا اعتراف کر کے اپنے باطل مذہب سے ہندو ہریجنوں کی طرح ’’یدخلون فی دین اﷲ افواجاً‘‘ مرزائیت ترک کرنے میں کوئی تأمل نہ ہو۔ تاہم پھر بھی ناامیدی نہیں ہے۔ اس کتاب کے میدان عمل میں آنے سے بفضل الٰہی دلوں کی سیاہی دور ہونے کے کافی حقائق موجود ہیں۔ اس لئے کہ سورج جب نکل آئے تو لوگوں سے کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ لوجی وہ سورج نکل آیا ہے۔ بلکہ ہر شخص اسے خود بخود دیکھ لیتا ہے اور کسی شخص کو اس کے وجود سے انکار کی جرأت نہیں ہوسکتی اور تو اور آنکھوں کی بینائی سے محروم لوگ بھی اگرچہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ مگر اس کی حرارت کو محسوس کر کے اس کے وجود سے منکر نہیں ہوتے۔ ہاں! اگر صرف ایک روایتی جانور یا پرندہ یا آپ اس کو جس سے بھی موسوم کریں سورج سے انکار کر دے تو یہ سورج کا قصور نہیں ہے۔ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتاب راچہ گناہ بلکہ ’’آفتاب آمد، دلیل آفتاب‘‘ سورج اپنے وجود کے لئے خود ایک بڑی دلیل ہے۔ احقر راقم عفا اﷲ عنہ نے حضرت مولانا ممدوح مدظلہ کی اس کتاب کا مکمل مطالعہ کیا ہے۔ میں اس کتاب کی نشر واشاعت کو پاکستان اور ان ممالک کے لئے جہاں جہاں یہ فرقہ ارتداد پھیلا رہا ہو بہت ہی اہم یقین کرتا ہوں۔ بلکہ اس کتاب کی گھر گھر میں موجودگی کو بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ مصنف کتاب ہذا کو اس کی محنت کااجر عظیم عطاء فرمائے اور مسلمان بھائیوں سے استدعاء کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو بہت زیادہ ہاتھوں تک پہنچاکر عنداﷲ ماجور ہوں۔ انشاء اﷲ تعالیٰ یہ کتاب مرزائیت زدہ معاشرہ کے لئے ایک مذہبی تریاق کا کام دے گی۔ ’’وما علینا الّا البلاغ‘‘ حافظ ارشاد احمد دیوبندی عفا اﷲ عنہ!