احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۵… کیا ممکن ہے کہ جناب رسول اﷲa کو مان کر اور آپ کا پیرو ہوکر حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت ایسے بیہودہ اور سخت کلمات زبان سے نکالے جیسے مرزاقادیانی نے ضمیمہ انجا۱؎م آتھم وغیرہ میں نکالے ہیں اور ایک اولوالعزم نبی کی بے حرمتی کی ہے۔ ہرگز نہیں کسی مسلمان کی زبان یا قلم سے ایسے الفاظ نہیں نکل سکتے۔ بلکہ قوی الاسلام ان الفاظ کو سن نہیں سکتا۔ اس کا دل لرز جاتا ہے۔ اگر کوئی دہریہ خدا کے ساتھ گستاخی کرے یاکوئی مردود، حضرت سرور انبیاءa کی نسبت زبان سے بے ادبانہ کلمات نکالے تو کسی مسلمان سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے جواب میں خداتعالیٰ یا کسی برگزیدہ خداتعالیٰ کو گالیاں دینے لگے۔ ۱؎ (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۴ تا۹، خزائن ج۱۱ ص۲۸۸تا۲۹۳) دیکھا جائے کہ کیسے سخت اور فحش کلمات لکھے ہیں۔ جب یہ حاشیہ پیش کیا جاتا ہے تو ناواقفوں سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کلمات یسوع کو کہے ہیں۔ جب ان کے رسالہ (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) سے دکھایا جاتا ہے کہ خود مرزاقادیانی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور یسوع کو ایک بتاتے ہیں تو اور بیہودہ باتیں کہنے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ الزاماً ایسا کہا ہے کبھی کہتے ہیں کہ توہین کی نیت نہ تھی۔ مگر یہ سب فریب ہے۔ الزام دینا ہم بھی جانتے ہیں اور ہم نے بھی الزام دئیے ہیں۔ مگر جس طرز سے مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی بے حرمتی کی ہے کوئی مسلمان کسی طرح نہیں کر سکتا اور نہ شریعت محمدیہ سے اسے اس طرح کہنا جائز ہے۔ اس واقعہ کو یاد کرنا چاہئے جسے (امام بخاری ج۲ ص۹۶۵) نے روایت کیا ہے کہ ایک صحابی اور یہودی سے لڑائی ہوئی اور یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سارے جہاں پر ترجیح دی اور صحابی نے جناب رسول اﷲa کو اور اس یہودی کو ایک طمانچہ مارا اور یہودی جناب رسول اﷲa کے پاس فریاد لے گیا اور حضورa نے اس یہودی کے سامنے فرمایا کہ: ’’لا تخیّرونی علی موسیٰ‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر مجھے بڑھاؤ نہیں۔ غور کیا جائے کہ صحابی نے کوئی لفظ بے ادبی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں نہیں کہا تھا۔ صرف جناب رسول اﷲa کو فضیلت دی تھی اور وہ بھی یہودی کے مقابلہ میں الزاماً کہا تھا اور سچی بات تھی۔ مگر حضورa نے اس کو بھی جائز نہ رکھا اور فرمایا کہ مجھے موسیٰ پر نہ بڑھاؤ۔ اس کو حقیقت المسیح میں دیکھنا چاہئے۔ جب رسول اﷲa نے صرف یہود کے مقابلہ میں اپنی فضیلت کو منع فرمایا تو ایسی بیہودہ گوئی اور بے حد فضیحتی پادری کے مقابلہ میں کیونکر جائز ہوسکتی ہے۔ جیسے مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی کی ہے۔ یہی رسول اﷲa کی پیروی کا دعویٰ ہے۔ اسی کی وجہ سے نبوت کا مرتبہ مل گیا؟ یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ اس کے علاوہ دافع البلاء کے آخر میں تو کسی پادری کے مقابلہ میں نہیںلکھتے۔ بلکہ قرآن مجید کا حوالہ دے کر مسلمانوں سے خطاب کر کے حضرت مسیح علیہ السلام کو شرمناک الزام دیا ہے۔ اب خلیفہ صاحب فرمائیں کہ جن کی عظمت وشان قرآن مجید میں باربار بیان کی گئی ہے۔ جن کو اﷲتعالیٰ نے اپنا برگزیدہ رسول فرمایا ہے۔ان کی نسبت کوئی مسلمان ایسے خیالات کر سکتا ہے جیسے مرزاقادیانی نے دافع البلاء کے آخر میں کئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جن سے ان کی دہریت ثابت ہوتی ہے۔