احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
معنوں میں مختلف طور سے شائع ہے۔ (لسان العرب ج۴ ص۳۶۷) ملاحظہ کیجئے۔ عرب میں جو مشہور شاعر الاعشی ہے۔ اس کا شعر بھی اس لفظ کی سند میں لکھا ہے۔ پھر جس کسی نے اس کو فارسی لفظ سمجھا ہے۔ یہ اس کی ناواقفی ہے اور یہ بھی معلوم کر لیجئے کہ جس کتاب میں اس کے فارسی ہونے کا شبہ بیان کیاگیا ہے۔ اسی میں اس کے جواب بھی لکھے ہیں۔ ایک جواب یہ ہے: ’’قال ابن جریر ماورد عن ابن عباس وغیرہ من تفسیر الفاظ من القرآن انہا بالفارسیۃ او الحبشیۃ او النبطیۃ او نحو ذلک انما اتفق فیہا توارد اللغات فیتکلم بہا العرب والفرس والحبشۃ بلفظ واحد (اتقان)‘‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن مجید کے جس لفظ کو فارسی وغیرہ کا لفظ کہہ دیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ لفظ عربی کے سوا فارسی وغیرہ میں بھی ہے۔ اب فرمائیے کہ مقالید کو اگر کسی نے فارسی لکھا ہو تو قرآن پر کیا اعتراض ہوا اور یہ فرمائیے کہ یہ اعتراض کس مخالف اسلام نے کیا ہے؟ آپ تو مخالف اسلام کے اعتراض دیکھنا چاہتے ہیں۔ تیسرا جملہ: ’’ان ہذان لساحران‘‘ یہ جملہ آپ نے لکھا مگر اس پر آپ کا کیا اعتراض ہے؟ اسے آپ نے کچھ تو بیان کیاہوتا۔ اب ہم آپ سے کہتے ہیں کہ شاید قرآن مجید آپ کی تلاوت میں نہیں رہتا ہے۔ آپ کو جدید نبی کی تصانیف کے دیکھنے سے فرصت نہیں ملتی ہوگی اور جو ان پر اعتراضات کئے گئے ہیں ان کے جواب سوچنے میں غلطان وپیچان رہتے ہوں گے یا مناسبت طبعی کی وجہ سے کاذب کی تصانیف زیادہ پسند ہیں۔ قرآن مجید جو ہندوستان میں مشہور ہے اس میں تو مذکورہ جملہ کا لفظ ان مخفف ہے۔ مشدد نہیں ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں جو الفاظ ہیں وہ بالکل قاعدہ کے موافق ہیں۔ اگر علم سے ممارست ہے تو آپ کو انکار نہیں ہوسکتا۔ غرضیکہ قرآن مجید پر کچھ اعتراض نہیں ہے اور جس نے ان پر تشدید کیا ہے اس کے متعلق متعدد جواب بھی دئیے ہیں۔ تفاسیر اور رسالہ شرح شذور الذہب فی معرفتہ کلام العرب کا ص۱۴ ملاحظہ کیجئے۔ مؤلف صاحب کے لفظی اعتراضات کا تو خاتمہ ہولیا۔ اب ص۱۷ میں ان لفظی اعتراضات کی مثال میں پادری فنڈر کے اعتراضات نقل کرتے ہیں وہ چند اعتراض ہیں۔ ایک یہ کہ یونانی وغیرہ زبانوں میں ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن کی عبارت قرآن مجید سے عمدہ ہے۔ اب مولوی صاحب سے دریافت کیا جائے کہ یہ معترض عربی اور یونانی کا بڑا ادیب ہے جو دونوں کا