احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
ایسے ادیب نہیں ہیں جو ایسا قصیدہ عربی میں لکھ سکیں۔ پھر بطور احتیاط بیس دن کے اندر چھپوا کر بھیجنے کی قید لگا دی اور سمجھ لیا کہ اس مدت کے اندرتو وہ لکھ کر کسی طرح بھیج ہی نہیں سکتے۔ اگرچہ وہ ادیب بھی ہوں اس لئے ایسا دعویٰ کر دیا۔ ثانیاً ۱۳۳۳ھ میں رسالہ ابطال اعجاز مرزا کا پہلا حصہ چھپا ہے جو ۱۰۴صفحہ کا ہے۔ (یہ رسالہ بھی احتساب کی جلد ہذا میں شامل اشاعت ہے۔ مرتب!) اس میں صرف قصیدے کی غلطیاں دکھائی ہیں اور ہر قسم کی غلطیاں ہیں اور خاص قادیان بھیجا گیا ہے۔ مگر تیسرا برس ہے۔ اب تک کسی مرزائی کی مجال نہیں ہوئی کہ جواب دے۔ پھر کیا ایسے ہی مہمل اور پر اغلاط رسالہ کو معجزہ کہا جاتا ہے شرم نہیں آتی۔ اب اس کو ملاحظہ کرنا چاہئے کہ مرزاقادیانی اس دعویٰ اعجاز کی وجہ سے کئی دلیلوں سے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ پہلی اور دوسری دلیل کلام معجز کی تعریف ان دونوں رسالوں پر صادق نہیں آتی۔ کلام معجز کے لئے زمانے کی تعیین نہیں ہوتی۔ مرزاقادیانی نے دو طرح سے زمانہ متعین کیا۔ ایک یہ کہ آئندہ زمانہ کا کلام جواب میں پیش کیا جائے۔ گذشتہ زمانہ کا کلام نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ چند روز میں جواب دیا جائے۔ ان دونوں وجہوں سے ان کا اعجاز غلط ثابت ہوا اور یہ دو دلیلیں ان کے جھوٹے ہونے کی قرار پائیں۔ تیسری دلیل جس میں سات دلیلیں ہیں ہم نے اعجاز المسیح اور قصیدہ اعجازیہ کے جوابات پیش کر دئیے جو ان دونوں رسالوں سے بدرجہا ہر طرح سے عمدہ ہیں۔ جب ان کے جوابات ان سے بدرجہا عمدہ موجود ہیں تو وہ معجزہ نہیں ہوسکتے اور ہر ایک جواب مرزاقادیانی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی دلیل ہے اور بیان سابق میں پانچ جواب قصیدہ کے اور دو اعجاز المسیح کے ذکر کئے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ یہ سات دلیلیں مرزاقادیانی کے جھوٹے ہونے کی ہوئیں اور وہ پہلے بیان ہو لیں۔ اس لئے یہاں تک نو دلیلیں ہوئیں۔ دسویں دلیل ایک رسالہ اعجاز المسیح پر ریویو مطبع فیض عام لاہور میں چھپا ہے۔ اس میں صرف لفظی غلطیاں اعجاز المسیح کی دکھائی ہیں۔ کئی برس ہوئے اسے چھپے ہوئے مگر کوئی مرزائی اس کا جواب نہیں دے سکا۔ جو کلام اس قدر غلط ہو وہ تو فصیح وبلیغ بھی نہیں ہو سکتا اور اعجاز تو بہت بلند مرتبہ ہے۔ یہ دسویں دلیل ہوئی اس کے معجزہ نہ ہونے کی۔ قادیانی کے سرگروہوں نے اپنے جہلاء کو یہ جواب سکھا دیا ہے کہ ایسے اعتراضات تو