احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۱… منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد (تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴) کس نے کہاہے؟ ۲… اعجاز احمدی کا وہ شعر بھی آپ کو یاد ہے جس میں مرزاقادیانی لکھ رہے ہیں کہ: ’’رسول اﷲa کے لئے تو صرف چاند گہن ہوا اور میرے لئے چاند گہن اور سورج گہن دونوں ہوئے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۲) کہئے جناب یہاں تو برابری سے گذر کر فضیلت کا دعویٰ ہے۔ یہاں غلامی کہاں چلی گئی؟ ۳… (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳) کا وہ منقولہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ ’’رسول اﷲa سے تین ہزار معجزے ہوئے۔‘‘ اس کے بعد اس قول پر نظر کیجئے۔ جہاں لکھتے ہیں کہ: ’’مجھ سے تین لاکھ سے زیادہ نشان ظاہر ہوئے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰) اب فرمائیے کہ یہاں سو حصے زیادہ فضیلت کا دعویٰ ہے یا نہیں؟ ضرور ہے پھر یہاں دعویٰ غلامی کہاں چلا گیا؟ اسی طرح مرزاقادیانی کے دعوے بہت ہیں۔ مگر جب جیسا موقع ان کے خیال میں آگیا ویسا دعویٰ کر دیا۔ حکیم صاحب کچھ تو ہوش کیجئے۔ آپ کہاں تک بات بنائیں گے؟ ’’لن یصلح العطار ما افسد الدہر‘‘ خلیفہ صاحب کے حال پر سخت افسوس ہے کہ باوجود واقف ہونے کے ایسی مہمل بات کہتے ہیں اور مسلمانوں کو فریب دیتے ہیں۔ اگر ان کی عقل پر ایسے پردے پڑے ہوئے نہ ہوتے تو مرزاقادیانی کے حلقہ بگوش ہرگز نہ ہوتے۔ غرضیکہ مرزاقادیانی کی باتوں نے آفتاب کی طرح روشن کر دیا کہ اس اعجاز کے دعوے سے مقصود لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا اور معلوم کر لیا تھا کہ ان شرطوں کے ساتھ جواب دینا غیر ممکن ہے۔ کیونکہ جو کام اسباب ظاہری کے لحاظ سے کم سے کم ڈیڑھ دو مہینہ کا ہو وہ بیس دن میں کیونکر ہوسکتا ہے؟ مگر قدرت خدا کا نمونہ ہے کہ جماعت مرزائیہ کے پڑھے لکھے بھی ایسی موٹی بات کو نہیں سمجھتے اور ان رسالوں کو معجزہ مان رہے ہیں۔ قصیدہ اعجازیہ کی تفصیلی حالت اور اس کے اغلاط اوّلاً، الہامات مرزا مطبوعہ بار چہارم کے ص۹۳ سے ص۱۰۶ تک دیکھنا چاہئے۔ مولوی صاحب نے قصیدہ کی غلطیاں دکھا کر یہ بھی لکھا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے قصیدہ کو ان اغلاط سے پاک کریں اور پھر زانو بزانو بیٹھ کر عربی تحریر کریں۔ اس وقت حال کھل جائے گا۔ مگر مرزاقادیانی نے تو اس کے جواب میں دم بھی نہ مارا۔ اگر عربیت میں دعویٰ تھا اور یہ قصیدہ خود انہوں نے لکھا تھا تو کیوں سامنے نہ آئے۔ یہ بدیہی دلیل ہے کہ قصیدہ دوسرے سے لکھوایا اور اپنے فہم کے موافق سمجھ لیا کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب وغیرہ