احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
جائے تو شاید کچھ جواب ہو۔ پھر دیکھا جائے کہ اتنے جز کے روز میں انسان تصنیف کرے گا۔ پندرہ بیس روز سے کم میں تو لکھنا غیر ممکن ہے۔ اب عربی قصیدہ کی تالیف کا اندازہ کیجئے۔ غرضیکہ بیس روز میں یہ دونوں کام ہرگز نہیں ہوسکتے۔ یہ بدیہی اور عقلی بات ہے۔ اب اس کے چھپنے کی مدت پر نظر کی جائے۔ اس کی حالت تجربہ کار اور صاحب مطبع خوب جانتے ہیں۔ اگر دوسرے کے مطبع میں چھپوایا جائے تو حسب خواہ اس قدر جلد چھپوا لینا اس کے اختیار سے باہر ہے۔ ہاں اگر خود مولوی صاحب کسی پریس کے مالک ہوں اور وہ خود لکھیں اور چھپوائیں اور درمیان میں کوئی مانع پیش نہ آئے اور پریس میں وغیرہ صحیح وسالم رہ کر مستعدی سے کام کریں تو چھوٹے پریس میں ایک مہینہ میں اور بڑے میں غالباً بیس روز میں رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد بھیجا جائے گا۔ غرضیکہ تخمیناً دوہ ماہ میں ایسے رسالے کا لکھا جانا اور چھپنا ہوسکتا ہے۔ اگر مؤلف کو کوئی بیماری یا کوئی شدید ضرورت نہ آئے۔ اس کے علاوہ رسالہ لکھے جانے کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ لکھنے والے کو مرزاقادیانی یا ان کے مریدین کی بات پر ایسا اعتماد ہو کہ اگر میں محنت شاقہ اٹھا کر جواب لکھوں گا تو کوئی نتیجہ اس پر مرتب ہوگا اور مرزا قادیانی خود اپنے آپ کو یا ان کے مرید انہیں جھوٹا جانیں گے۔ مگر کسی صاحب تجربہ کو اس کی امید نہیں ہوسکتی۔ بہت تجربہ ہوچکا ہے کہ بڑے معرکہ کی پیشین گوئیاں ان کی جھوٹی ہوئیں۔ مگر ان کے مریدین کے قلب ایسے تاریک ہوگئے ہیں کہ کسی کو ایسی اعلانیہ کذابی نظر ہی نہیں آتی۔ پھر عربی عبارت کا اعجاز یا عدم اعجاز مرزائی جہلاء کیا سمجھیں گے؟ انہی مشکلات پر نظر کر کے مرزاقادیانی نے ایسی قیدیں لگائیں کہ ان قیدوں کی وجہ سے جواب غیر ممکن ہوجائے اور اگر ان قیدوں کو چھوڑ کر کوئی جواب لکھے تو مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ ہم اسے ردی کی طرح پھینک دیں گے۔ ان دنوں خلیفہ قادیان سے دریافت کیاگیا کہ اعجاز احمدی اور اعجاز المسیح کا اگر کوئی جواب دے تو وہ جواب سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اس کا جواب مفتی محمد صادق قادیانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا آیا کہ: ’’اعجاز احمدی کے بالمقابل لکھنے کی میعاد ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو ختم۱؎ ہوگئی اور اعجاز المسیح کی میعاد ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء کو ختم ہو گئی۔‘‘ ۱؎ اس کے ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تین برس کے اندر جو نشان دکھانے کی پیشین گوئی مرزاقادیانی نے کی تھی وہ آخر دسمبر ۱۹۰۳ء تک ختم ہوتی ہے۔ اس لئے قصیدہ بنانا مرزائیوں کا فرض ہے۔ اگر نہ بنائیں تو مرزاقادیانی اپنے اقرار سے جھوٹے ہوئے جاتے ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ جب منکوحہ آسمان والی پیشین گوئی سترہ اٹھارہ برس میں پوری نہ ہوئی اور مرزاقادیانی نے خدا کو جھوٹا قرار دیا تو اگر اس تین برس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہوتا تو کوئی الزام خد پر یا اپنی سمجھ پر لگا دینا آسان تھا ایسی اعلانیہ غلطی اور فریب دہی کی ضرورت نہ تھی۔