احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
سے کہا کہ میں اس کو مسیح کیا مانتا اس نے پانچ سو روپیہ دے کر مجھ سے قصیدہ لکھوایا ہے۔ اس لئے میں اس کی تالیف قلب کرتا ہوں۔ اس کی تائید میں دو شاہد اور ہیں مولانا غلام محمد صاحب فاضل ہوشیارپوری سے معلوم ہوا کہ سعید نامی ایک شخص طرابلس کا رہنے والا بڑا ادیب تھا۔ مگر آزاد مزاج کا شخص تھا۔ جیسے اکثر شاعر ہوتے ہیں۔ مرزاقادیانی سے اس سے خط وکتابت تھی۔ پانی پت میں آکر اس نے بعض معقول کی کتابیں پڑھی تھیں۔ مولوی محمد سہول صاحب پورینوی بھاگلپوری کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں میں نے اس سے ادب کی بعض کتابیں پڑھی ہیں۔ بڑا ادیب تھا کہتا تھا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ میں نے مرزاقادیانی کو لکھا اس نے قصیدہ لکھوایا میں نے لکھ دیا۔ اس نے روپیہ مجھے دیا۔ ان تین شاہدوں کے بیان سے ثابت ہوگیا کہ یہ قصیدہ مرزاقادیانی کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ مگر ان باتوں کو کون جانتا ہے اور جس نے جانا بھی وہ اس کے شور وغل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔مرزاقادیانی نے اپنی میعادی پیشین گوئی پوری کرنے کے لئے سامان کر لیا۔ کیونکہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں ادب کا مذاق نہیں ہے اور یہ قصیدہ ایک ادیب عرب کا ہے اس کا جواب یہاںکوئی نہیں دے سکے گا۔ اس کی تمہید میں اپنی تعریف بھی بہت کچھ لکھ لی۔ اسی عرصہ میں اتفاق سے موضع مدّ میں ان کے مریدین نے مناظرہ میں بڑی شکست کھائی اور نہایت ذلیل ہوئے اور اپنے مرشد کے پاس جاکر روئے۔ یہ واقعہ اس کامحرک ہوا کہ وہ قصیدہ جو سعید طرابلسی سے لکھوایا ہے اس میں مناظرہ مدّ کے متعلق اشعار کااضافہ کر کے مشتہر کیا جائے اور اعجاز کا دعویٰ کیا جائے۔ اس لئے اسے چھاپ کر مع اشتہار کے مولوی ثناء اﷲ کے پاس بھیجا تاکہ عام مریدین اور خاص ان مریدین کو جو مناظرہ کی شکست سے نہایت افسردہ ہوگئے تھے خوش کریں۔ اس بیان سے مرزائی اعجاز کی حقیقت تو کامل طور سے منکشف ہوگئی۔ البتہ اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ سعید شامی تو بڑا ادیب تھا۔ وہ ایسی غلطیاں نہیں کر سکتا۔ جیسی مرزاقادیانی کے قصیدہ میں ہیں۔ یہاں تک کہ بعض الفاظ اس میں ایسے ہیں جو عرب ہرگز نہیں بولتے۔ اس لئے یہ قصیدہ اس شامی کا نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب نہایت ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ سعید مرزا کو جھوٹا جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ عربی ادب سے مرزاقادیانی کو مس نہیں ہے۔ اس لئے اس نے قصداً یہ غلطیاں کی ہیں تاکہ اہل علم اس سے واقف ہو کر اس کی تکذیب کریں۔ چونکہ عرصہ تک ہند میں رہا ہے اور بعض علوم عقلیہ اس نے یہاں پڑھے ہیں۔ اس لئے وہ ہندی محاورات سے بھی واقف تھا۔ مرزاقادیانی کو فریب دینے کی غرض سے بعض غلط الفاظ بھی اس میں داخل کر دئیے تاکہ اہل علم انہیں دیکھ کراس کے اعجاز کی تکذیب کر سکیں۔