احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
سخت کلامی کر کے عہد وپیمان کریں اور نہایت پختہ اقرار کر کے اسے پورا نہ کریں۔ ایسا ہوسکتا ہے؟ خدا کو عالم الغیب جان کر جواب دیجئے۔ کیا ممکن ہے کہ خدا کے مقبول کسی سے ایسا پختہ وعدہ کریں کہ اس کے پورا نہ ہونے پر اپنے کذب کو منحصر کر دیں اور خدا ان کی اس قدر مدد نہ کرے کہ وہ وعدہ پورا کر سکیں۔ حالانکہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ کا الہام ہوچکا ہو یہ ہرگز نہیں ہوسکتا اور سنا گیا کہ نہ جانے کا عذر مرزاقادیانی نے یہ کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ولایتی مولوی مجھے مار ڈالیں گے۔ بھائیو! ذرا تو غور کرو کہ مرزاقادیانی نے خود ہی مناظرہ کا اشتہار دیا اور نہایت غیرت دار الفاظ لکھ کر پیر صاحب کو آمادہ کیا اور جب مناظرہ کا ٹھیک وقت آپہنچا اور مقابل سامنے آگیا۔ اس وقت یہ الہام ہوتا ہے کہ ولایتی مولوی مارنے کے لئے بلاتے ہیں۔ کیا اس عالم الغیب کو پہلے سے اس کا علم نہ تھا کہ اگر مناظرہ میں اجتماع ہوگا تو وہ مار ڈالنے کی فکر کریں گے۔ اس ملہم نے اشتہار دینے کے وقت یہ الہام نہ کیا کہ اشتہار نہ دے۔ ورنہ روکا جائے گا اور جھوٹا اور ملعون ٹھہرے گا۔ خداتعالیٰ نے اپنے رسول کو اس فعل سے تو نہ روکا جس سے تمام خلق کے نزدیک بدعہد اور جھوٹا قرار پائے اور اس کی اس رسوائی اور کذب کو پسند کر کے اس کے بچانے کے لئے الہام کیا۔ کون صاحب عقل اسے باور کر سکتا ہے؟ مگر ان کے معتقدین خوب خیال کر لیں کہ اگر یہاں مرزاقادیانی کو سچا مانا جائے گا تو اﷲتعالیٰ کو جھوٹا اور وعدہ خلاف ماننا ہوگا۔ کیونکہ مقربین خدا خصوصاً انبیاء بغیر الہام الٰہی ایسا اعلان ہرگز نہیں کر سکتے اور اگر غلطی کریں تو انہیں فوراً اطلاع خداوندی نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ عام مخلوق کے روبرو وہ اپنی زبان سے جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مقام پر انبیاء کی حمایت نہ ہو اور انبیاء کو اس کی حمایت پر اعتماد نہ ہو۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ جماعت مرزائیہ انبیاء کے قتل نہ ہونے پر آیت: ’’لا غلبن انا ورسلی‘‘ پیش کرتی ہے۔ پھر کیا مرزاقادیانی کو اس وقت تک اس آیت پر نظر نہ تھی جو ولایتی مولویوں سے ڈر گئے اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ نہ جانے سے میں جھوٹا ٹھہروں گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی خجالت مٹانے کے لئے یہ دعویٰ کیا کہ ستر دن کے اندر سورہ فاتحہ کی تفسیر ہم بھی لکھیں اور تم بھی لکھو۔ مگر چارجز سے کم نہ ہو۔ اب مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ ہم نے اس میعاد کے اندر تفسیر لکھی اور پیر صاحب لکھنے سے عاجز رہے۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مان لیں کہ یہ تفسیر خود مرزاقادیانی نے لکھی اور اسی مدت میں لکھی اور کسی دوسرے نے مدد نہیں دی۔ پھر اس میں اعجاز کیا ہوا؟ اتنی بات معلوم ہوئی کہ مرزاقادیانی کو ادب میں اس قدر مذاق تھا کہ دوڈھائی مہینہ میں ڈھائی تین جز تفسیر کے عربی عبارت میں لکھ سکتے تھے اور وہ بھی اتنی محنت اور مشغولی کے بعد کہ نمازیں بھی بہت سی قضا کیں۔