احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
۶… مرزاقادیانی کے قصیدہ میں ان کے گھڑے ہوئے الفاظ اور معنی ہیں جسے الہام لغوی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جیسا تعشق بمعنی میت اور ناطف بمعنی شیرینی ومکلم بمعنی نبی وغیرہ۔ (دیکھو ابطال اعجاز مرزا حصہ اوّل) بخلاف اس کے اس قصیدہ میں عموماً وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو سلیس اور کثیر الاستعمال ہیں۔ ۷… مرزاقادیانی نے اپنے قصیدہ میں حسن مطلع کا کوئی لحاظ نہیں کیا۔ حالانکہ عرب کی عادت قدیماً اور حدیثاً ہے کہ وہ ابتدائے قصیدے کو مرغوب اور خوش کن الفاظ اور مضامین دلربأ سے مزین کرتے ہیں اور اسی کو حسن مطلع کہا جاتا ہے جن میں اکثر تعزل ہوتا ہے اور عشق وفراق وغیرہ کی دلفریب باتیں مذکور ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے نفس کو اس کی طرف نہایت رغبت ہوتی ہے اور بغایت سننے کا مشتاق ہوتا ہے۔ عربی کے تمام مشہور قصیدے اس طرح پر لکھے گئے ہیں۔ اہل عرب اس کو کمال عظیم شمار کرتے ہیں۔ متقدمین سے لے کر متاخرین کے قصیدے ملاحظہ کیجئے۔ جس قدر اعلیٰ درجہ کے قصائد ہیں۔ کوئی اس سے خالی نہیں۔مرزاقادیانی نے اس کا بالکل خیال نہیں کیا اور صدر قصیدہ سے الفاظ شنیعہ کا استعمال شروع کیا۔ جس سے طبیعت سلیمہ نفرت کرتی ہے۔ مثلاً وفا، مد،مرارواک، خلیل، اغراء، موغر جس کے معنی زخمی کو مارا، ہلاک شدہ، ہلاک کیا، سخت گمراہ، برانگیخہ کیا۔ غصہ دلانے والا۔ اب حضرات ناظرین دیکھیں کہ ابتدائے قصیدے سے مرزاقادیانی کی بدزبانی اور تضلیل اور ہلاکت اور رردی معلوم ہوتی ہے اور اس قسم کے الفاظ صدر قصیدہ میں معیوب شمار کئے جاتے ہیں۔ کما بیّن فی موضعہ۔ بخلاف اس کے یہ قصیدہ بحمداﷲ ہر دو مطلع نہایت دلچسپ تشبیب اور تغزل پر مبنی ہے جن حضرات کو مذاق ادب ہے اور اشعار عربیہ کا ذوق سلیم ہے وہ ان کے دلفریب مضامین کی داد دیتے ہوئے انشاء اﷲ اس کی فوقیت کو ضرور تسلیم کریں گے۔ ۸… شعراء متاخرین نے محاسن قصائد اور کمالات شعر یہ سے حسن تخلص کو بھی ضروری قرار دیا ہے اور جس قدر اس میں تناسب اور استحسان واقع ہوتا ہے۔ اسی قدر شاعر کا کمال اور قصیدہ کی عظمت ہوتی ہے۔ مرزاقادیانی کا قصیدہ اس سے بالکل معرّیٰ ہے اور کیونکر نہ ہو۔ جب کہ مرزاقادیانی نے صدر قصیدہ میں حسن مطلع کا لحاظ نہ کیا اور الفاظ شنیعہ سے کریہہ الصوت بنادیا تو